فالج سے معذوری اور اموات میں مسلسل اضافہ

پاکستان دُنیا کاچھٹا،سب سےزیادہ آبادی والا مُلک ہے،جو تقریباً22کروڑنُفوس پرمشتمل ہے۔ ایک محتاط اندازےکےمطابق ہمارے مُلک میں فالج سمیت غیرمتعدی امراض(Non-Communicable Diseases) کی شرح تقریباً40فی صد سےزائدہے۔
جب کہ آبادی کا تقریباً5فی صد حصّہ فالج کےساتھ زندگی گزارنےپرمجبورہے۔ اس اعتبارسےلگ بھگ 10لاکھ افراد کسی نہ کسی حوالےسےمعذوری کی زندگی بسرکررہے ہیں۔ دَورِحاضرمیں جہاں طب کے شعبےنےہرحوالےسےترقّی کی، وہیں فالج کےعلاج کےضمن میں بھی خاصی جدّت آئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک فالج کوایک لاعلاج مرض سمجھا جاتا تھا،مگراب مختلف تحقیقات کےبعد یہ ثابت ہوچُکا ہےکہ یہ قابلِ علاج مرض ہی نہیں، بلکہ اس کےحملےسےبچاؤ بھی ممکن ہے۔
البتہ یہ بات اپنی جگہ موجودہےکہ عوام کی بڑی تعداد تاحال فالج کےبروقت،مؤثر،معیاری اورسستےعلاج سےمحروم ہے،جس کےسبب پاکستان میں ایک محتاط اندازے کےمطابق سالانہ چارلاکھ سے زائد افراد انتقال کرجاتےہیں،نیز،لاکھوں افراد مستقل معذوری کی زندگی گزارنےپرمجبورہیں۔ فالج ایسا مرض ہے، جوجسم کے کسی بھی حصّےکومفلوج کرسکتاہے، جب کہ بعض کیسزمیں اس کا حملہ جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔ اس کی علامات میں جسم کےکسی ایک حصّےکا سُن ہوجانا،قوّتِ گویائی سےمحرومی یا باتوں کو سمجھ نہ پانا،کھانے پینے میں دشواری،چلنے پھرنےسے معذوری،نظرنہ آنا یادھندلاہٹ وغیرہ شامل ہیں۔
فالج کےحملےکےبعد مریض فوری علاج کےطلب گارہوتےہیں،کیوں کہ متاثرہ فرد کوجس قدرجلد اسپتال یا اسٹروک یونٹ میں طبّی نگہداشت مل جائے،بحالی کےامکانات اُتنےہی بڑھ جاتےہیں،مگر بدقسمتی سےہمارے یہاں زیادہ ترمریضوں کوبروقت معیاری علاج دستیاب نہیں ہوپاتا۔ پاکستان بَھرکے بڑے اسپتالوں کی جانب سے کی جانے والی مختلف تحقیقات کے مطابق صرف فالج سے ہونے والی اموات 7سے20فیصد کے درمیان ہیں،جب کہ فالج کے تمام مریضوں میں سے 63فی صد مختلف طبّی پیچیدگیوں کا شکارہوجاتےہیں اور89فیصد مکمل یا جزوی طور پر اپنے روز مرّہ امورخود انجام نہیں دے پاتےاوراہلِ خانہ کےمحتاج ہو کررہ جاتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button