مینار پاکستان والے بے شرموں کو نامرد بنانے کی تجویز

https://youtu.be/ucUhR-ksB0s
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے مینار پاکستان پر ایک نہتی لڑکی کو بے لباس کرنے والے مردوں کو نا مرد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ میرا معاشرے سے یہ سوال ہے کہ مینار پاکستان پر جو لوگ یہ تماشا دیکھ رہے تھے اور ویڈیوز بنا رہے تھے، کیا وہ ٹھنڈا گوشت تھے؟ سینکڑوں افراد کے مجمعے میں کیوں کوئی ایک بھی مرد ان بے غیرت نامردوں کو نہیں روک پایا، وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا ان نامردوں کو نامرد بنانے کی سزا نہیں دی جانی چاہیئے؟
اپنی تازہ تحریر میں مظہر عباس 1963 کا ایک ایسا ہی واقعہ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ تب ’ٹک ٹاک‘ کا تصور نہیں تھا۔ لاہور کے منٹو پارک میں ہزاروں افراد چند اکیلی خواتین پر ٹوٹ پڑے۔ انہوں نے انکے کپڑے پھاڑ دیئے اور وہاں سے چل دیئے۔ دوسرے دن اخبارات میں خبر چھپی اور بس۔ مظہر کا کہنا ہے کہ یہ بات شاید مجھے کبھی پتا نہ چلتی اگر انہی افراد میں سے ایک نے مینار پاکستان کے واقعہ کے بعد مجھے فون کر کے یہ اعتراف نہ کیا ہوتا کہ آج سے 58 سال پہلے وہ بھی اس گناہ میں شریک تھا اور آج تک شرمندہ ہے۔ اس شخص نے مجھے فون کر کے کہا کہ ’’مظہر صاحب، آج ایک اعتراف کرنا چاہتا ہوں۔ مینار پاکستان جیسا ایک واقعہ منٹو پارک میں بھی ہوا تھا۔ وہ نوجوانی کا زمانہ تھا، ہم بھی وہاں ایک تماشا دیکھنے پہنچ گئے۔ ایک سائیکل سوار تین دن سے مسلسل چکر لگا رہا تھا غالباً کوئی ریکارڈ بنانا چاہتا تھا۔ وہ آخری دن تھا اور ایک ہجوم تھا جو جوش و خروش سے نعرےلگا رہا تھا۔ جیسے ہی شو ختم ہوا بڑی تعداد میں لوگ خواتین کی جانب بڑھے اور پھر جس کا جو بس چلا اس نے وہ کیا۔ بدقسمتی سے میں بھی اس ریلے میں بہہ گیا۔ گھر جا کر سوچا میں نے یہ کیا کیا اور آج تک شرم آتی ہے‘‘۔
مظہر عباس کا کہنا یے کہ مشرقی پاکستان کی شرمناک داستانیں تو ہم نے سنی ہوئی ہیں۔ جنگ ہو یا امن عورت ہمیشہ حالتِ جنگ میں ہی رہتی ہے۔ ہر وقت اپنا دفاع کرنا پڑتا ہے، بازار ہوکہ سینما۔بھٹو صاحب کا زمانہ آگیا۔ اس وقت صرف سرکاری ٹیلی ویژن چینل ہوا کرتا تھا نہ کوئی سوشل میڈیا نہ کوئی نجی چینل مگر عورت پھر بھی نشانہ۔ پرانے لوگوں کو یاد ہوگا کراچی میں ہاکس بے پر پکنک پر جانے والی طالبات کیساتھ درجنوں نوجوانوں نے جو کچھ کیا اس کی بھی بس خبر چھپی۔ پھر مارشل لا آ گیا اور وہ بھی جنرل ضیاء الحق کا۔ اب تو پرنٹ میڈیا پر بھی پابندی تھی۔ ایک روز نواب پور کے واقعہ کی خبر نظر سے گزری جس سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ ہوا یوں کہ علاقہ کے جاگیردار نے مردوں کی حکم عدولی کی سزا ان کی عورتوں کو دی۔ انہیں برہنہ کرکے سرعام گھمایا گیا۔ کسی کی جرات نہیں تھی کہ اُنہیں روک سکتا۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ ایسے واقعات پر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مجرموں کو سرعام پھانسی دے دی جائے، کچھ کہتے ہیں ایسے مجرموں کو نامرد بنا دیا جائے۔ ان سب باتوں سے خوف تو پیدا ہو سکتا ہے لیکن سوچ نہیں بدل سکتی۔ ہمیں اس عمل سے کیوں ڈر لگتا ہے کہ بچوں اور بچیوں کو اسکول میں اور گھروں میں بتایا جائے کہ اگر کوئی غیر مرد تم کو غلط انداز سے ٹچ کرے تو فوراً ماں باپ کو بتائو۔ انکا کہنا ہے کہ زمانہ جہالت میں لوگ لڑکی پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔ اب عہدِ جدید ہے تو عورت کی تذلیل کی جاتی ہے۔ ریپ کا الزام ثابت کرنے کیلئے بھی گواہ اسے ہی لانے پڑتے ہیں۔ جب ہماری مجموعی سوچ اس کے بارے میں یہی ہوگی تو وہ مظلوم ہوتے ہوئے بھی ملزم ٹھہرائی جائے گی۔ تھانہ سے لے کر عدالت تک ایسے ایسے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مظہر عباس افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم تو وہ معاشرہ ہیں جہاں بانی پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح میدان سیاست میں آئیں تو انکے ساتھ ایوب سرکار کی جانب سے کیا کچھ نہیں کیا گیا۔ پہلے وزیراعظم کی اہلیہ بیگم رعنا لیاقت علی خان بھی سخت تنقید کی زد میں رہیں۔ بیگم نصرت بھٹو سیاسی جدوجہد کی علامت بنیں تو ہوائی جہاز سے اُن کی ڈانس کرتے ہوئے تصاویر پھینکی گئیں۔ بےنظیر بھٹو کے بارے میں جو ریمارکس ان گناہ گار کانوں نے 1988 کے ایک جلسے میں سنے یقین نہیں آتا کہ ایسے لوگ آج بھی ہمارے رہنما ہیں۔
یہی نہیں وزیراعظم کی پہلی اہلیہ جمائما خان کو کس قسم کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ اُنہیں ملک ہی چھوڑنا پڑ گیا۔ موجودہ خاتونِ اول جو سیاست سے دور رہتی ہیں، ان کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ دوسری طرف مریم نواز پر سیاسی تنقید تو ہو سکتی ہے اور ہونی بھی چاہئے مگر ان کی ذات کے بارے میں حال ہی میں کشمیر کے الیکشن میں جو ریمارکس دیئے گئے وہ انتہائی شرم ناک تھے۔ مظہر کے مطابق انہیں حیرت ان جملوں پر نہیں بلکہ اس کے دفاع میں پڑھے لکھے وزیروں کے بیانات سے ہوئی۔ان سب میں قدر مشترک عورت ہونا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب اخبارات میں لڑکیوں کو رپورٹنگ کی غرض سے نہیں بھیجا جاتا تھا۔ انہیں یا تو ڈیسک پر نوکری ملتی تھی یا پھر میگزین میں۔ وقت کے ساتھ اندازِ فکر میں تبدیلی آئی اور آج بڑی تعداد میں لڑکیاں نہ صرف رپورٹنگ کر رہی ہیں بلکہ خبریں بھی پڑھتی ہیں، شو بھی کرتی ہیں اور اس دوران ان نظروں کا سامنا بھی کرتی ہیں جو کبھی کبھی انہیں خوف میں بھی مبتلا کر دیتی ہیں۔
مظہر کہتے ہیں کہ کیا ہمیں یاد نہیں 2014 میں دھرنوں کے دوران کیا ہوا تھا۔ میڈیا نے اس سوچ کو بدلنے میں کہ پاکستان کی نصف سے زیادہ آبادی کو بھی وہی حقوق ملنے چاہئیں جو مردوں کو حاصل ہیں، اپنا کردار تو ادا کیا مگر اپنے اندر کی خرابیوں کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہمیں خود طے کرنا ہوگا کہ ’ریڈ لائن‘ کیا ہوتی ہے۔ قوانین اور ضابطہ اخلاق بھی ضروری ہے مگر ہمارا کیمرہ تو ایان علی کے کیس پر کم اور جسم پر زیادہ فوکس کرتا ہے جس سے اس سوچ کی عکاسی ہوتی ہے کہ ’بیٹی نہیں بیٹا چاہئے۔‘
مظہر عباس کہتے ہیں کہ گریٹر اقبال پارک والے واقعہ پر 58 سال بعد ہی سہی لیکن کسی شخص میں اتنی جرات تو پیدا ہوئی کہ اس نے اپنی بے غیرت کا اعتراف کیا ورنہ تو وہ صرف واقعہ سنانے پر ہی اکتفا کرتا اور بات ختم ہو جاتی۔