کیا پنجاب اسمبلی کے انتخابات 90 روز میں ہو پائیں گے؟

وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کی جانب سے عمران خان کی ضد پوری کرتے ہوئے صوبائی اسمبلی تحلیل کیے جانے کے بعد اگلا سوال یہ ہے کہ کیا نئے انتخابات نوے روز کے اندر ہو پائیں گے یا پھر تاخیر کا شکار ہو جائیں گے۔ پرویز الہٰی کی جانب سے پنجاب اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کے بعد اب پنجاب میں نگران وزیر اعلی اور کئیر ٹیکر حکومت کے لیے لوگوں کے ناموں پر غور شروع ہو گیا ہے جب کہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ میڈیا پر ذرائع کے حوالے سے یہ خبر چل رہی ہے کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 12 اپریل کو کروانے کا امکان ہے، تاہم حکومتی ذرائع نے واضح کیا ہے کہ ابھی نئے انتخابات کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ مارچ کے وسط میں رمضان المبارک کی آمد ہے لہٰذا اپریل کے مہینے میں الیکشن کا انعقاد کسی بھی صورت ممکن نہیں۔ فوری الیکشن کے انعقاد میں سب سے بڑی رکاوٹ مردم شماری کا عمل مکمل نہ ہونا ہے۔

یاد رہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں مشترکہ مفادات کی کونسل نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ مردم شماری مکمل کیے بغیر نئے انتخابات نہیں کروائے جائیں گے کیونکہ اسی کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کا عمل بھی مکمل ہونا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس عمل کے مکمل ہونے میں ابھی چھ مہینے کا وقت درکار ہے لہذا الیکشن کمیشن اس بنیاد پر انتخابات کے انعقاد میں چند ماہ کی تاخیر کر سکتا ہے جسکے بعد پورے ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی وقت میں کروائے جا سکتے ہیں۔ دوسری جانب پنجاب اسمبلی تحلیل ہوتے ہیں نگران حکومت کے قیام کا عمل شروع ہو جائے گا۔

آئینی ماہرین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ نگران سیٹ اپ کیلئے آئین نے واضح طور پر تین فورمز مقرر کر دیئے ہیں۔ سابق چیئرمین سینٹ اور ممتاز آئینی ماہر بیرسٹر وسیم سجاد کا کہنا ہے کہ آئین نے نگران سیٹ اپ کیلئے صرف تین فورمز فراہم کئے ہیں ، ان میں دو سیاسی فورمز ہیں ، پہلے مرحلے میں وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر دو دو ناموں کا تبادلہ کریں گے اور اس پر باہمی مشاورت ہو گی ، اگر وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر میں نگران چیف منسٹر کیلئے کسی ایک نام پر اتفاق نہ ہوا تو سپیکر سبکدوش اسمبلی کے ارکان میں سے دونوں جانب سے تین تین ارکان پارلیمانی کمیٹی مقرر کریں گے ، جو تین روز میں ایک نام پر اتفاق کرے گی ، یہ دونوں پولٹیکل فورمز ہیں اگر نگران سیٹ اپ کا معاملہ سیاسی فورمز پر طے نہ ہوا تو پارلیمانی کمیٹی اس معاملے کو چیف الیکشن کمشنر کو ریفر کر ے گی ، جو وزیر اعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر کے تجویزکردہ ناموں میں سے کسی ایک کو کیئر ٹیکر وزیر اعلیٰ مقرر کر یں گے ،آئین نے چیف الیکشن کمشنر کے فیصلے کو حتمی قرار دیا ہے، وسیم سجاد سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی فریق چیف الیکشن کمشنر پر اعتماد نہ کرے تو کیا اس کا فیصلہ اعلیٰ عدالت میں چیلنج ہو سکتا ہے ، وسیم سجاد نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر اپنی طرف سے کسی نئے نام پر غور نہیں کر سکتا ، اس کا مینڈیٹ محدود ہے کہ وہ دونوں فریقین کے بھیجے گئے ناموں میں سے کسی ایک کو نگران وزیر اعلیٰ مقرر کرے گا۔

ماضی میں جسٹس میر ہزار کھوسو کو نگران وزیر اعظم اور حسن عسکری رضوی کو پنجاب کا نگران وزیر اعلیٰ چیف الیکشن کمشنر نے مقرر کیا تھا، وسیم سجاد نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کے فیصلے کو چیلنج کرنے کو تو ایسا کیا جا سکتا ہے لیکن عدالت پہلے سوال کرے گی کہ کس قانون کے تحت چیلنج کررہے ہیں ،چیف الیکشن کمشنر کے فیصلے کے خلاف رٹ کا سکوپ محدود ہے ، سابق چیئرمین سینٹ اور پاکستان پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر میاں رضا ربانی کا اس معاملے پر کہنا تھا کہ آئین نے چیف الیکشن کمشنر کے فیصلے کو حتمی قرار دیا ہے جس کے خلاف اگر کوئی عدالت جاتا ہے تو اسے روک نہیں سکتے۔

 لیکن عدالت صرف ایسی صورت میں مداخلت کر سکتی ہے کہ فریقین کے تجویز کردہ ناموں میں کسی ایسے شخص کو چیف الیکشن کمشنر نگران وزیر اعظم / وزیر اعلیٰ مقرر کرتے ہیں جس سے ان کی بڑی بد نیتی کا اظہار ہو تو عدالت اس پہلو پرغور کر سکتی ہے۔ ورنہ چیف الیکشن کمشنر کے فیصلے کو اوور۔ٹرن نہیں کیا جا سکتا، انہوں نے کہا کہ ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ عدالت نے چیف الیکشن کمشنر کے نگران سیٹ اپ کے فیصلے کو ختم کیا ہو۔ 18 ویں ترمیم میں نگران سیٹ اپ کیلئے ایک مکمل نظام آئین کا حصہ بنا یا گیا تھا تاکہ ڈیڈ لاک پیدا نہ ہو ،انہوں نے کہا کہ آئین میں کیئر ٹیکر ز کیلئے عدالتی اختیارات نہیں ہیں ، لیکن عدالتی فعالیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف اپیل نہیں ہو سکتی۔ لہذا موجودہ صورتحال میں امکان اس بات کا ہے کہ پی ڈی ایم کا تجویز کردہ شخص ہی وزیر اعلی بنے گا چونکہ حمزہ شہباز اور پرویز الہی کے مابین کسی ایک نام پر اتفاق ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

Back to top button