12 اکتوبر کو مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ کیسے الٹا؟
تین بار وزیراعظم رہنے والے نوازشریف نے حال ہی میں ایک پارٹی ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کس طرح ضیا دور کے جنرل فیض علی چشتی جیسا بانکپن اور طمطراق رکھنے والے جنرل محمود احمد نے 12 اکتوبر 1999 کو وزیر اعظم ہاﺅس پہ قبضہ کیا تھا۔ اس روز کیا کچھ ہوا، اس حوالے سے میاں صاحب کے قریبی ساتھی اور سینئر صحافی عرفان صدیقی نے ایک تازہ تحریر میں تفصیل بیان کی ہے جس میں انہوں نے 9 ستمبر 2007 کی کہانی بھی بیان کی ہے جب نواز شریف نے مشرف دور میں وطن واپس آنے کا انقلابی فیصلہ کیا لیکن انہیں زبردستی جدہ واپس بھجوا دیا گیا۔
12 اکتوبر 1999 کے حوالے سے عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ سہ پہر کا وقت تھا۔ نواز شریف اپنے دفتر کے بجائے وزیراعظم ہاﺅس کے رہائشی حصے میں تھے۔ جنرل محمود احمد اس شکوہ کے ساتھ نواز شریف کی طرف بڑھے جس شکوہ وجلال کے ساتھ شاید بھارتی جرنیل جگجیت سنگھ اروڑہ بھی ہتھیار ڈالنے کےلیے کھڑے جنرل نیازی کی طرف نہیں بڑھا ہوگا۔ لمبی مونچھوں والے محمود کے ساتھ بارہ کمانڈوز تھے۔ سب کے ہاتھ میں جدید گنیں تھیں۔ سب کی گنوں کا رُخ وزیراعظم کے سینے کی طرف تھا۔ انہی لمحات میں لاہور سے بیگم کلثوم نواز کا فون آیا۔ وہ گویا ہوئیں کہ ”میں ٹی وی پر عجیب خبریں دیکھ رہی ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟“ میاں صاحب بیگم کو اس صورت حال سے آگاہ کررہے تھے کہ وزیراعظم کو حراست میں لینے کےلیے آنے والے دستے کے سربراہ جنرل محمود نے بلند آواز سے حکم دیا ۔۔ ”کاٹ دو فون کی تاریں“۔ اور تاریں کٹ گئیں۔
12 اکتوبر کو مشرف کیسے اقتدار پر قابض ہوا؟
عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ اس کے بعد وزیراعظم اپنی ہی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوگے۔ انہیں ایک گاڑی میں ڈال کر چکلالہ راولپنڈی کی ایک بیرک میں پہنچادیا گیا۔ رات کو جنرل محمود سمیت کئی جرنیل، زیرحراست وزیراعظم کے پاس آئے اور ان سے استعفے پر دستخط کروانے کےلیے شدید دباﺅ ڈالا گیا۔ تاہم نوازشریف نے کہا ”Over my dead body“ یعنی استعفے کےلیے تمہیں میری لاش سے گزرنا ہوگا۔
عرفان صدیقی لکھتے ہیں کہ اس کہانی کی جزئیات پھر کسی دن۔ آج میں اکتوبر سے نہیں ستمبر سے جڑی ایک داستان گاہے گاہے بازخواں کے طورپر دہرا رہا ہوں۔ یہ 9 ستمبر 2007 کا ذکر ہے جب نواز شریف نے مشرف کی رعونت کو چیلنج کرنے کےلیے ہر طرح کی مصلحت، احتیاط، خدشات اور امکانات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کےلیے رخت سفر باندھا تھا۔ یہ اچانک نہیں ہوا تھا۔ اُس کے پیچھے الف لیلٰی کی بھید بھری کہانیوں سے بھی زیادہ ایک دلچسپ کہانی بغداد کی پُر پیچ گلیوں کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ اس کہانی کا آغاز 22 مارچ 2007 کے دن ہوا تھا جب میری لندن میں میاں صاحب سے ایک تفصیلی ملاقات ہوئی تھی۔ عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ کئی گھنٹوں پر محیط اس ملاقات میں شہبازشریف کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔ اگلے تین چار دن کی داستان، حقیقی معنوں میں کسی طلسم ہوش ربا سے کم نہیں۔ مجھے ڈیوک اسٹریٹ کا وہ چھوٹا سا زیر زمین کافی ہاﺅس کبھی نہ بھولے گا جہاں ہم نے دفتر اور گھر کے بجائے اس لیے ملاقات کی تھی کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ یہ ایک بہت بڑا فیصلہ تھا جو بالآخر 9 ستمبر2007 کو لندن سے پاکستان کےلیے رخت سفر باندھنے کا دیباچہ بنا۔ عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ میں 23 مارچ 2007 سے شروع ہونے والی کہانی کے کم وبیش ساڑھے پانچ مہینوں پر محیط طلسماتی پیچ وخم سے صرف نظر کرتے ہوئے 9 ستمبر2007 تک آتا ہوں۔
دو دن قبل نواز شریف ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں یہ اعلان کرچکے تھے کہ "مشرف جو جی چاہے کرلے، میں پاکستان آ رہا ہوں۔”
میں آج بھی اپنے تصور کی آنکھ سے وہ منظر دیکھ رہا ہوں جب نوازشریف آکسفورڈ اسٹریٹ سے نکلتی ڈیوک اسٹریٹ پر واقع 60 ڈیوک مینشن کے فلیٹ نمبر 10 میں اپنے دفتر میں الماریوں اور میز کی درازوں کا جائزہ لیتے ہوئے کاغذات کی چھانٹی کررہے تھے۔ اُس وقت کمرے میں میرے علاوہ حسن نواز اور میاں صاحب کے پرائیویٹ سیکریٹری عمران چوہدری کے سوا کوئی نہ تھا۔ میاں صاحب نے اچانک میز کی کسی دراز سے ایک چھوٹا سا کاغذ نکالا۔ غور سے دیکھا اور حسن سے کہنے لگے، ”دیکھو حسن! اس پر ایک ٹیکسی ڈرائیور کا نام اور فون نمبر لکھے ہیں۔ پچھلے دنوں میں نے اس ٹیکسی میں سفر کیا تھا تو زندہ دل ڈرائیور نے کہا تھا کہ صاحب آپ نے بڑا اچھا پرفیوم لگا رکھا ہے۔ میں نے اُس سے وعدہ کرلیا تھا کہ تمہیں یہ پرفیوم پیش کروں گا۔“ پھر میاں صاحب نے پرفیوم کا نام لیتے ہوئے کہا کہ ”یہ پرفیوم خرید کر ٹیکسی ڈرائیور کو فون کرنا اور کسی طرح پہنچا دینا۔ سُستی نہ کرنا اور میری طرف سے تاخیر پر اُس سے معذرت بھی کرنا۔“
بقول عرفان صدیقی اُس دن پاکستان میں سعودی سفیر ڈاکٹر علی عواض العسیری کی طرف سے بار بار کوشش ہورہی تھی کہ وہ میاں صاحب سے بات کریں۔ میاں صاحب مسلسل گریز کررہے تھے۔ اُن دنوں پی۔ٹی۔آئی کے موجودہ راہنما رﺅف حسن سعودی سفیر کے اسٹاف سے وابستہ تھے۔ انہوں نے میرے فون پر بات کی اور کہنے لگے کہ عسیری صاحب بات کرنا چاہتے ہیں اور میاں صاحب گریز کررہے ہیں۔ آپ انہیں قائل کریں، انہوں نے بھی مجھ سے بات کی۔ میں نے میاں صاحب کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ بات کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ فیصلہ تو آپ نے کر ہی لیا ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے کہاکہ ہماری طرف سے کال نہیں جانی چاہیے۔ رﺅف حسن کے توسط سے سعودی سفیر کی کال آئی۔ میاں صاحب نے تحمل سے سنی۔ خلاصہ یہی کہ عسیری صاحب نے اُنہیں مصلحت سے کام لینے کا مشورہ دیا اور کہا کہ بہت جلد معاملات ٹھیک ہوجائیں گے۔ میاں صاحب نے کہاکہ میں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیاتھا۔ سپریم کورٹ نے میرے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ اب میرا نہ آنا، انتہائی نامناسب ہے اور سیاسی طور پر میرے لیے بہت مہلک بھی۔ سعودی سفیر نے غالباً اشارہ دیا کہ آپ کو دوبارہ جدہ بھی بھیجا جاسکتا ہے۔ میاں صاحب نے انگریزی میں کہا
”Now these things don’t matter for me. I have already taken a decision. “
یعنی ”اب یہ باتیں میرے لیے معنی نہیں رکھتیں۔ میں پہلے ہی فیصلہ کرچکا ہوں۔“
قافلہ ہیتھرو ائیر پورٹ پہنچ گیا۔ پی۔آئی۔اے کی پرواز 786 تھی جو براہ راست ہیھترو سے اسلام آباد آرہی تھی۔ میں نے حیرت سے پوچھا، کیا ہم ”پی۔آئی۔اے میں جا رہے ہیں؟“ میں بورڈنگ کارڈ تھامےگیٹ نمبر 34 کی طرف بڑھا تو دیکھا کہ ایگزیکٹو لاﺅنج کے باہر شہبازشریف، میاں صاحب اور اسحاق ڈار کھڑے ہیں۔ شہباز صاحب کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اسحاق ڈار انہیں کچھ سمجھا رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی شہباز کہنے لگے ”آپ بھائی صاحب سے کہیں نا۔ مجھے چھوڑ کر کیوں جا رہے ہیں۔“ میاں صاحب نے عین ہوائی اڈے پہنچ کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ شہباز صاحب کو فی الحال نہیں جانا چاہیے۔ ایک غیرملکی چینل کے رپورٹر سے بات کرتے ہوئے میاں صاحب بولے ”پی۔آئی۔اے ہماری قومی ائیر لائن ہے جو براہ راست لندن سے اسلام آباد جاتی ہے۔ باقی تمام پروازیں راستے میں کہیں نہ کہیں رُکتی ہیں۔ مشرف کے عالمی سرپرست کہیں بھی ہمارے لیے مسئلہ کھڑا کرسکتے ہیں۔ ہم نے پی۔آئی۔اے کا انتخاب اس لیے بھی کیا ہے کہ اس پر پاکستان کی سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق ہوتا ہے۔“
بقول عرفان صدیقی طیارے میں، میاں صاحب اور میں پہلو بہ پہلو نشستوں پر تھے۔ ونڈوسیٹ پر میں اور ساتھ والی سیٹ پر میاں صاحب۔ لمبے سفر کی حکایتِ طویل کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ میں گاہے گاہے اُن کی بائیں کلائی پربندھی گھڑی دیکھتا رہا جو پاکستان کا وقت بتا رہی تھی۔ طیارہ رن وے کو چھو رہا تھا جب ہم نے دیکھا کہ چار سو وردی اور بے وردی کمانڈوز پھیلے ہوئے ہیں۔ کچھ مسلح، کچھ غیر مسلح۔ جہاز کے سارے عملے نے فرداً فرداً میاں صاحب کے ساتھ تصاویر بنوائیں۔ ہم سب اکانومی کلاس میں جمع ہوگئے۔ اب طیارے کو کمانڈوز نے گھیر لیا تھا۔ پولیس کے شائستہ مزاج افسر، کلیم امام اُن دنوں اسلام آباد ائیر پورٹ پر امیگریشن ڈائریکٹر کے طور پر تعینات تھے۔ دو ساتھیوں کے ہمراہ طیارے میں آئے۔ میاں صاحب کو سیلوٹ کیا اور بولے، ”سر آپ پاسپورٹ دے دیں تاکہ اس پر آپ کا دخول (Entry) لگا دیاجائے۔ ہم نے کہا کہ نہیں، میاں صاحب کی امیگریشن بھی ہمارے ساتھ ہوگی۔ ڈیڑھ گھنٹہ بحث مباحثہ جاری رہا۔ بالآخر طے پایا کہ میاں صاحب کار پر نہیں، ہمارے ساتھ بس پر ہی وی۔آئی۔پی لاﺅنج جائیں گے۔ ایسا ہی ہوا۔ اب وی۔آئی۔پی لاﺅنج کے اندر اور باہر سینکڑوں کمانڈوز نے مورچے سنبھال لیے۔ پولیس کے دستے الگ تھے۔ مجھے کلیم امام ایک طرف لے گئے اور بولے، ”آپ میاں صاحب سے کہیں وہ پاسپورٹ دے دیں۔ یہ رسمی سی کارروائی ہے۔“ میں نے کہاکہ یہ فیصلہ تو میاں صاحب خود ہی کریں گے۔ میں لاﺅنج میں میاں صاحب کے سامنے والی نشست پر بیٹھا تھا۔ انہوں نے مجھے اشارہ کیا اور اپنی جگہ سے اٹھے۔ میں بھی ساتھ چلا تو کمانڈوز کا غول بھی متحرک ہوگیا۔ ایک دیوار کے ساتھ کھڑے ہوکر میاں صاحب نے کہاکہ ”یہ کیا کرنا چاہتے ہیں؟“ میں نے کہا ”ان کی نیت ٹھیک نہیں لگتی۔“ اب وی۔آئی۔پی لاﺅنج مچھلی بازار کا منظر پیش کررہا تھا۔ اتنے میں اچانک درمیانے قد کا ایک منحنی سا شخص ہاتھ میں میگافون تھامے، سابق وزیراعظم کے سامنے آکھڑا ہوا اور بولا، ”میں لیفٹیننٹ کرنل اظہر محمود قاضی ہوں۔ میرا تعلق نیب سے ہے۔ میرے پاس محمد نوازشریف کی گرفتاری کے وارنٹ ہیں۔ ملزم ایک منی لانڈرنگ کے کیس میں نیب کو مطلوب ہے۔“ شیم شیم کے فلک شگاف نعرے بلند ہوئے۔ کرنل قاضی نے دوسرا اعلان کیا، ”نوازشریف آپ زیر حراست ہیں۔“ اس کے ساتھ ہی بیسیوں کمانڈوز اور پولیس اہلکار نوازشریف کو دبوچنے کےلیے بڑھے، لیگی کارکنوں نے شدید مزاحمت کی اور میاں صاحب کو گھیرے میں لے لیا۔ اب اہلکار خود سری اور بدتمیزی پر اتر آئے۔ پرویز رشید کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اُس نے کپکپاتی مگر گرج دار آواز میں کہا، ”خبردار پاکستان کے سابق وزیراعظم سے زیادتی ہوئی تو ہم جانیں دے دیں گے۔“
عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ بالآخر نوازشریف کو کمانڈوز نے نرغے میں لے لیا۔ وہ انہیں دھکم پیل کرتے ہوئے لاﺅنج سے باہر لے گئے۔ مشرف کی ریاستی طاقت جیت گئی۔ اپنے وزیراعظم سمیت ہم سب ہار گئے۔ شاہراہ دستور کے کنارے کھڑے وہ سپریم کورٹ بھی ہار گئی جس نے حکم دیا تھا کہ نوازشریف کو وطن واپسی سے نہیں روکا جا سکتا۔ یہ وہی سپریم کورٹ ہے جس نے کئی سال بعد نواز شریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نااہل قرار دے دیا تھا۔ یہ وہی سپریم کورٹ تھی جو آئین شکنی سمیت بیسیوں گناہوں میں لت پت پرویز مشرف کا بال بھی بیکا نہ کرسکی تھی۔ اُس دن پورے اسلام آباد میں کرفیو کی کیفیت تھی۔ عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ میں نہ جانے کس طرح گھر پہنچا۔ ٹی۔وی پر خبر چل رہی تھی کہ نواز شریف کو واپس جدہ بھیج دیاگیا ہے۔ پاک سرزمین شاد باد۔