عمرانڈوز کے باہمی اختلافات سےPTI مزید توڑ پھوڑ کا شکار

اہم امور اور پالیسی بیان میں پی ٹی آئی رہنماؤں کے موقف میں تضاد،مقبولیت میں سبقت کی خواہش اور سیاسی رقابت نے تحریک انصاف کیلئے تنظیمی سطح پر پیچیدگیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ 9 مئی کے بعد مسلسل عتاب کا شکار تحریک انصاف کیلئے بدلتے حالات کے ساتھ داخلی سطح پر بھی تنظیمی مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مبصرین کے مطابق جو عمرانڈو جیل میں عمران خان سے ملاقات کرکے آتا ہے وہ خود کو لیڈر سمجھنے لگتا ہے اور جیل کے باہر آ کر اپنا پالیسی بیان داغ دیتا ہے جس سے پارٹی کی سطح پر ایک انتشار کی کیفیت بیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ٹی وی ٹاک شوز اور سوشل میڈیا پر مختلف رہنماؤں کے اہم ایشوز پرموقف میں تضادات اورایک دوسرے کی سیاسی حیثیت کی نفی کی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ پارٹی میں سب اچھا نہیں ہے اور پی ٹی آئی کے جلد یا بدیر ٹکڑے ہونا یقینی ہے۔
دوسری جانب ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق بانی تحریک انصاف عمران خان کی قید کے دوران پی ٹی آئی میں اندرونی اختلافات پارٹی کے لیے شرمندگی کا باعث بن چکے ہیں، خاص طور پر پارلیمانی اور جنرل باڈی کے ٹکٹوں کی تقسیم پر یہ اختلافات واضح طور پر سامنے آئے ہیں۔ تاہم پارٹی رہنماؤں کا خیال ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم کے دوران سیاسی جماعتوں میں اس طرح کے اختلافات عام ہیں اور عمران خان کی غیرموجودگی نے ان مسائل کو مزید بڑھا دیا ہے۔وہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ پارٹی رہنماؤں کو اڈیالہ جیل میں قید عمران خان تک رسائی حاصل نہیں ہے جبکہ جن وکلا کو ان سے ملنے کی اجازت ہے وہ مبینہ طور پر اپنے مفادات کے مطابق عمران خان تک ادھورے یا توڑ مروڑ کر پیغامات پہنچاتے ہیں۔مبصرین کے مطابق قومی اسمبلی کے ٹکٹوں کی تقسیم کے دوران پی ٹی آئی کی صفوں میں خوب کھلبلی مچی، ایڈووکیٹ شیر افضل مروت نے ٹکٹوں کی تقسیم میں اقربا پروری کا الزام عائد کیا، حتیٰ کہ پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے الزام عائد کیا تھا کہ راولپنڈی میں رکن قومی اسمبلی کی سیٹ کے لیے پی ٹی آئی کا ٹکٹ کروڑوں روپے میں فروخت ہوا۔
بڑے اختلافات اس وقت سامنے آئے جب یہ اعلان کیا گیا کہ بیرسٹر علی ظفر پارٹی چیئرمین شپ کے امیدوار ہوں گے، اس موقع پر شیر افضل مروت نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیرسٹر گوہر علی خان ڈیلیور کرنے میں ناکام رہے، بعد ازاں بیرسٹر گوہر علی خان کو دوبارہ پارٹی چیئرمین شپ کے لیے امیدوار نامزد کردیا گیا۔دوسری جانب شیر افضل مروت، جو اس وقت صوبوں میں انتخابی مہم چلا رہے تھے، اُن کو کہا گیا کہ وہ اپنی سرگرمیاں روک دیں اور اسلام آباد پہنچیں۔اسی طرح سابق اسپیکر قومی اسمبلی و رہنما پی ٹی آئی اسد قیصر نے حکومت خیبرپختونخوا کو وفاقی حکومت سے تعاون نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے، تاہم رکن قومی اسمبلی علی محمد خان نے کہا کہ یہ غلط فیصلہ ہوگا۔سینیٹ کے ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر بھی پی ٹی آئی میں خوب تنقیدی آوازیں اٹھیں اورسوشل میڈیا پر عمرانڈوز نےپی ٹی آئی کے بعض امیدواروں پر خوب تنقیدی وار کئے۔انتخابی نشان ’بلا‘ چِھن جانے کے بعد پارلیمانی پارٹی میں شمولیت کے معاملے پر 8 فروری کے انتخابات سے پہلے اور بعد میں اختلافات کافی واضح تھے۔
شیر افضل مروت نے دعویٰ کیا کہ پارٹی کے اندر کچھ عناصر غلط فیصلے کرنے کے ذمہ دار ہیں اور ان کی وجہ سے پارٹی مخصوص نشستوں سے محروم ہوئی۔جبکہ مروت نے سنی اتحاد کونسل سے اتحاد پر بھی خوب تنقید کی جس پر سنی اتحاد کونسل کی قیادت کی طرف سے بھی منہ توڑ جواب دیا گیا۔ایک طرف پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت اور کور کمیٹی میں اختلافات، بدزبانی اورہاتھا پائی کی خبریں زبان زد عام ہیں دوسری جانب ترجمان تحریک انصاف سب اچھا کی گردان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ترجمان رؤف حسن کے مطابق پی ٹی آئی میں کوئی اختلافات نہیں ہیں، تمام سیاسی جماعتوں میں ذاتی نقطہ نظر پیش کرنا معمول کی بات ہے، تاہم یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پارٹی پالیسی میں شیئر کروں گا جبکہ پارٹی پالیسیوں کے حوالے سے دیگر پارٹی رہنماؤں کے بیانات کو ان کی ذاتی رائے سمجھا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ عمران خان پارٹی لیڈر ہیں اور صرف وہی پارٹی کی پالیسیاں براہ راست یا ان شخصیات کے ذریعے واضح کرتے ہیں جو جیل میں ان سے ملتے ہیں، ان پالیسیوں کو شیئر کرنے کے لیے میں ترجمان کی ذمہ داری نبھاؤں گا۔