ویگو ڈالے کے ناقد عمران خان ڈالے والوں سے ہی ڈیل کیوں چاہتے ہیں؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا ہے کہ آج کل تحریک انصاف کی مرکزی لیڈرشپ ویگو ڈالے والوں پر مسلسل تنقید کر رہی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ خود ان کے پارٹی قائد عمران خان کا ڈی این اے بھی ویگو ڈالے والوں کا ہی اور اسی لیے موصوف آج بھی ایک منتخب حکومت کی بجائے ویگو ڈالے والوں سے ہی مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں انصار عباسی کہتے ہیں کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے پشاور میں کہا ہے کہ ویگو ڈالے والے سیاستدانوں اور صحافیوں کا پیچھا چھوڑیں اور دہشت گردی روکنے کی طرف توجہ دیں۔ انصار کہتے ہیں کہ ہونا بھی یہی چاہیے لیکن پاکستان میں پہلا مارشل لگانے والے جنرل ایوب خان کے صاحبزادے عمر ایوب خان کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ویگو ڈالے والوں کو یہاں تک پہنچانے میں سیاستدانوں کی کتنی ذمہ داری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ خود عمران خان بھی ویگو ڈالے والوں کا ہی تخم ہیں اور انہی کی سہولت کاری کی وجہ سے 2018 میں وزارت عظمی پر فائز ہوئے تھے۔ خان صاحب یہ بھی بھول گئے کہ وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نے اپنے ناقدین کو اُنہی ویگو ڈالے والوں کے ذریعے اٹھوانا شروع کیا جن میں سیاستدان اور صحافی دونوں شامل تھے۔

آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو صرف 3 ووٹوں کی کمی کا سامنا

انصار عباسی کہتے ہیں کہ دراصل عمران خان نے وزیراعظم بن کر پاکستان کے لیے کچھ اچھا کرنے کی بجائے اپنے ناقدین کے ساتھ برا کرنے پر فوکس کیے رکھا اور اج اسی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ خان صاحب نے اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے کیلئے جنرل فیض حمید کے کالے ویگو ڈالے استعمال کیے۔ اس دوران ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ صحافیوں کو جسمانی طور پر ٹارگٹ کیا گیا اور ان پر قاتلانہ حملے تک ہوئے۔ یاد رہے کہ عمران خان کی وزارت عظمی کے دوران سینیئر صحافی ابصار عالم پر قاتلانہ حملہ ہوا اور انہیں گولیاں ماری گئیں، مطیع اللہ جان کو اغوا کیا گیا، اسد طور پر تشدد کیا گیا، اور عامر میر اور عمران شفقت کو گرفتار کیا گیا۔ انصار عباسی کہتے ہیں کہ کیا عمران خان کے دور حکومت میں یہ حرکتیں جائز تھیں۔ اب ویگو ڈالے والے عمران خان اور اُن کی پارٹی کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں تو چیخیں نکل رہی ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سب کے باوجود عمران اب بھی منتخب حکومت اور سیاست دانوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کی بجائے ویگو ڈالے والوں کے ساتھ ہی بات کرنا چاہتے ہیں۔ خان کا اصرار ہے کہ چونکہ ویگو ڈالے والے ہی اس ملک کے اصل فیصلہ ساز ہیں لہازا وہ انہی سے بات چیت کریں گے۔

انصار عباسی کا کہنا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جنگ لڑنے کا دعوی کرنے والے کپتان کو فوج کی سیاست میں مداخلت پر کوئی اعتراض نہیں، ان کا اصل مطالبہ یہ ہے کہ فوج سیاست میں مداخلت کرے، لیکن ان کے حق میں کرے، نہ کہ کسی اور جماعت یا شخصیت کے حق میں۔ عمران کی تو کوشش ہے کہ ویگو ڈالے والے ایک بار پھر اُن کے ساتھ مل جائیں اور اُن کے مخالفین کے ساتھ وہی سلوک کریں جس کا شکار پی ٹی آئی والے ہو رہے ہیں۔ انصار عباسی کہتے ہیں کہ چند دن پہلے خان صاحب نے کہا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سمیت سب کیلئے مزاکرست کے دروازے بند کر رہے ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ نہ تو اسٹیبلشمنٹ ان سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے اور نہ ہی عمران نے کبھی سیاست دانوں کے ساتھ مذاکرات کیلئے اپنا دروازہ کھولا تھا۔ خان صاحب 2023 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمی سے فارغ ہونے کے بعد سے مسلسل فوجی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کی خاطر مذاکرات کی بھیک مانگنے میں مصروف ہیں۔ لیکن فوجی ترجمان نے صاف صاف کہہ دیا کہ اُن کا دروازہ مذاکرات کیلئے بند ہے۔ تحریک انصاف کے چیف منصوبہ ساز ائی ایس ائی کے سابق سربراہ فیض حمید کی گرفتاری کے بعد سے عمران شدید ذہنی دباؤ میں ہیں چونکہ ایسی خبریں  آ رہی ہیں کہ انہیں 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر حملوں کی منصوبہ بندی کے الزام میں فوجی ٹرائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسے میں اضطرابی کیفیت کا شکار عمران نے کہا یے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ پر بھی مذاکرات کے دروازے بند کر رہے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دوسرے فریق نے ہمیشہ بانی پی ٹی آئی کیساتھ مذاکرات سے انکار کیا ہے چونکہ اس وقت ان کا سٹیٹس ایک سزا یافتہ مجرم کا ہے۔

انصار عباسی کہتے ہیں کہ عمران خان کو تو یہ بات سمجھانا شاید ممکن نہیں لیکن اگر پاکستان کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے صاحبزادے عمر ایوب خان واقعی چاہتے ہیں کہ چمکدار کالے ویگو ڈالے والے سیاست سے دور ہو جائیں تو پھر تحریک انصاف کو سیاسی جماعتوں سے بات کرنا پڑے گی، یوتھیا قیادت کو پیپلز پارٹی، نواز لیگ اور ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنا پڑے گا۔ اگر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں گی نہیں، اگر سیاستدان ایک دوسرے کو ہی جیلوں میں ڈال کر خوش ہوتے رہیں گے اور اس کو جمہوریت کی پہچان کے طور پر دیکھیں گے تو پھر ویگو ڈالے والے ہی مضبوط ہوں گے اور سیاستدان ایک دوسرے کو نشانہ بناتے رہیں گے جسکا فائدہ ویگو ڈالے والے اٹھاتے رہیں گے۔ لہازا عمر ایوب اور تحریک انصاف کے دوسرے رہنمائوں کو چاہئے کہ عمران خان کو سمجھائیں۔ نفرت کی سیاست ختم کریں، دوسروں کے خلاف گھٹیا زبان استعمال کرنے، جھوٹ اور بہتان تراشی سے اجتناب کریں اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر اس ملک کو آئین اور قانون کے مطابق چلانےکیلئے اتفاق رائے پیدا کریں۔

انصار عباسی کا کہنا ہے کہ سیاست کبھی پاکستان میں قابل فخر نہیں رہی لیکن عمران خان اور تحریک انصاف نے سیاست میں بہت گند پیدا کر دیا، جس کی ایک جھلک تحریک انصاف کے اسلام آباد کے جلسہ میں علی امین گنڈا پور نے دنیا کو دکھائی۔ جو کچھ وہاں کہا گیا، اُس کے صحافیوں سے متعلق حصہ پر تو عمرایوب، بیرسٹر گوہر سمیت کتنے تحریک انصاف کے رہنمائوں نے معافی مانگی جبکہ گنڈاپور کی تقریر کے باقی حصوں پر بھی پہلے ایک دو دن تحریک انصاف کے رہنما معذرت خواہ ہی دکھائی دیے لیکن ہھر ہوا کا رخ تب بدل گیا جب خان نے گنڈاپور کی تقریر کی مکمل حمایت کرتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ جو پی ٹی آئی رہنما اُس تقریر کی مخالفت کر رہے ہیں وہ بزدل ہیں اور اُنہیں پارٹی چھوڑ دینی چاہیے۔ نہیں معلوم عمران خان کے اندر بھرا ہوا کا غصہ اور نفرت کیسے ختم ہوں گے۔ موصعف میں یہ غصہ اور نفرت تب بھی موجود تھے جب وہ وزیراعظم تھےاور آج بھی ہے جب وہ جیل میں ہیں۔ تحریک انصاف کے کسی رہنما کی جرات نہیں کہ وہ بات کرے جو عمران خان کی مرضی کے خلاف ہو، اس لیے ہو گا وہی جو عمران خان چاہتے ہیں۔ ویگو ڈالے والوں کو سیاسی معاملات سے نکالنا ہے تو پھر عمران خان کو صرف اور صرف سیاستدانوں سے ہی بات کرنی پڑے گی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر ویگو ڈالے والے سیاستدانوں کو یونہی اپنی مرضی سے نچاتے رہیں گے۔

Back to top button