"پانچ سو وکلاء کا احتجاجی غول”

تحریر : نصرت جاوید

بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت

’’احتجاجی‘‘ غول سے گھبرا کر ہمارے ایک چیف جسٹس، سجاد علی شاہ جن کا اِسم گرامی تھا، عدالت چھوڑ کر اپنے چیمبر تشریف لے گئے تھے۔ حالانکہ وہ ایسے ’’دلیر‘‘ جج تھے جنہوں نے اپنے ایک پیشرو نسیم حسن شاہ کے لکھے ’’تاریخی‘‘ فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔ جس فیصلے سے انہوں نے اختلاف کیا اس کے ذریعے اپریل 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں نواز شریف کی پہلی حکومت اور ان دنوں کی قومی اسمبلی بحال کردی گئی تھی۔ سجاد علی شاہ نے مذکورہ فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اس دْکھ کا بھی اظہار کیا تھا کہ سندھ سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ عدالتیں نرم دلی دکھانے سے گریز کرتی رہی ہیں۔ یہ لکھتے ہوئے غالباََ ان کے ذہن میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے علاوہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کی صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں برطرفی کو ’’جائز‘‘ ٹھہرانا بھی شامل تھا۔ تاریخی ریکارڈ درست رکھنے کی خاطر یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ 1985ء  میں جنرل ضیاء  الحق کے ہاتھوں وزیر اعظم کے عہدے پر نامزد ہوئے محمد خان جونیجو کاتعلق بھی سندھ ہی سے تھا۔ جونیجو مرحوم نے مگر جب 1988ء￿  میں افغانستان کے حوالے سے جنرل ضیاء کے برعکس رویہ اختیارکرنے کی کوشش کی تو انہیں برطرف کردیا گیا۔
جونیجو صاحب کی برطرفی کے خلاف 1985ء  میں منتخب ہوئی قومی اسمبلی کے ایک سرگرم رکن حاجی سیف اللہ نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ برطرفی کا واقعہ مئی 1988ء میں ہوا تھا۔ سپریم کورٹ مگر اس کے خلاف پیش ہوئی درخواست کے بارے میں بے خبر ہونے کا تاثر دیتی رہی۔ 17اگست1988ء کے روز جنرل ضیاء￿ الحق کی ایک فضائی حادثے میں رحلت کے بعد مگر سپریم کورٹ کو وہ بھولی درخواست یاد آگئی۔ اسے روزانہ سماعت کے لئے فکس کردیا گیا۔ سماعت شروع ہوئی تو اس کے دوران بنچ پر بیٹھے کئی معزز ججوں نے تندوتیز ریمارکس ادا کرنا شروع کردئے۔ ان کی بدولت تاثر یہ پھیلا کہ محمد خان جونیجو کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر 1985ء میں منتخب ہوئی قومی اسمبلی کو بحال کرتے ہوئے واپس بھیجا جارہا ہے۔ جونیجو صاحب ان دنوں اسلام آباد کے E-7سیکٹر میں واقعہ ایک گھر میں قیام پذیر تھے۔ اچانک بے شمار سیاستدان وفاداری کا اظہار کرنے ان کے گھر کا طواف کرنا شروع ہوگئے۔ جنرل اسلم بیگ کو یہ رش پسند نہ آیا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو خوش کرنے کے لئے وہ بے چین تھے کہ نئے انتخاب ہوں جو نظربظاہر پیپلز پارٹی کو اقتدار میں لاسکتے تھے۔ پیغامبروں کے ذریعے سپریم کورٹ کو ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھنے کا تاثر ملا۔ بالآخر جو فیصلہ آیا وہ اپنی جگہ ایک تکلیف دہ لطیفہ تھا۔ وطن عزیز کی اعلیٰ ترین عدالت نے قرار دیا کہ جنرل ضیاء کی جانب سے محمد خان جونیجو کی حکومت اور قومی اسمبلی کی برطرفی خلافِ آئین تھی۔ ان دونوں کو مگر بحال نہیں کیا جارہا کیونکہ ’’عوام‘‘ نئے انتخابات کے خواہش مند ہیں۔
ہماری سیاست میں عدالتی مداخلت نے جو تماشے لگائے ان کا تفصیلی ذکر آج کا موضوع نہیں۔ کالم کا آغاز سجاد علی شاہ کے ذکر سے ہوا ہے جو ’’احتجاجی‘‘ غول سے گھبراکر عدالت چھوڑ کر اپنے چیمبر میں ’’پناہ گزین‘‘ ہوگئے تھے۔ حالانکہ ا س سے قبل وہ اتنے ’’دلیر‘‘ تھے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں برطرفی کو نسیم حسن شاہ کے لکھے ’’تاریخی‘‘ فیصلے کو نظرانداز کرتے ہوئے ’’جائز وواجب‘‘ قرار دیا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف کو بھی اپنی عدالت میں ذاتی طورپر طلب کیا ’’احتجاجی‘‘ غول کے روبرو مگر ’’بکری‘‘ ہوگئے۔ بعدازاں ان کے ’’برادر ججوں‘‘ نے ان کے خلاف ’’بغاوت‘‘ کردی اور وہ اپنا عہدہ چھوڑنے کو مجبور ہوگئے۔
تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کالم کے قارئین کی اکثریت ریگولر کے علاوہ سوشل میڈیا کے ذریعے ملی خبروں سے بھی مستقل آگاہ رہتی ہے۔ پیدائشی ڈرپوک ہوتے ہوئے اشاروں کنایوں میں آپ کو فقط یہ بتانا ہے کہ میری دانست میں بدھ 12اکتوبر2024ء کے روز سجاد علی شاہ کے حوالے سے نمودار ہوئی نظیر دہرانے کی کوشش ہوئی ہے۔ ’’500وکلا کے ہجوم‘‘ کا ذکر ہوا۔ معاملے کو لیکن نظرانداز کردیا گیا۔ جمعرات کے روز صبح اٹھتے ہی یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ مجھے خدشہ ہے کہ بدھ کے روز سپریم کورٹ کے بنچ نمبر1میں جو واقعہ ہوا ہے اسے آج بھی دہرانے کی کوشش ہوگی۔ ربّ کریم سے اگرچہ دْعا ہے کہ میرا خدشہ غلط ہو۔
سجاد علی شاہ کے ساتھ ہجوم کے ہاتھوں جو ہوا تھا اسے دہرانے کے خواہش مندوں کو ہاتھ باندھ کر یاد دلانا چاہوں گا کہ ’’سندھ کے سیاستدانوں‘‘ کے ساتھ سپریم کورٹ کے ہاتھوں مبینہ طورپر ’’نارواسلوک‘‘ کا شکوہ کرنے والے اس جج کو لاڑکانہ سے آئی ایک سیاستدان- محترمہ بے نظیر بھٹو- نے کئی سینئر ججوں کو نظرانداز کرتے ہوئے چیف جسٹس کے عہدے پر نامزد کیا تھا۔ اس منصب پر براجمان ہوتے ہی مگر وہ سینیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس کی تعیناتی کے علم بردار بن گئے۔ بعدازاں فاروق لغاری کے ہاتھوں بے نظیر حکومت کی فراغت کو جائز وواجب قرار دیتے ہوئے ’’محسن کش‘‘ بھی ثابت ہوئے۔ انہیں گماں تھا کہ اپنی ’’اصول پرست‘‘ شہرت کی بنیاد پروہ 1997ء￿  کے انتخابات کے ذریعے ’’ہیوی مینڈیٹ‘‘ کے ساتھ وزیر اعظم کے منصب پر لوٹے نوازشریف کو بھی تھلے لگالیں گے۔ اس حوالے سے صدر فاروق لغاری کو انہوں نے اپنا فطری حلیف تصور کیا۔ اس گماں میں مبتلا رہے کہ آٹھویں ترمیم کے تحت وزیر اعظم کو برطرف کرنے کا حق رکھنے والا صدر اگر چیف جسٹس کے ساتھ مل جائے تو وہ دونوں مل کر وزیر اعظم کو تھلے لگاسکتے ہیں۔ یہ سوچتے ہوئے مگر یہ حقیقت فراموش کر گئے کہ وطن عزیز میں ریاست کا ایک طاقتور ترین ادارہ بھی ہے۔اسے حلیف بنائے بغیر صدر اور چیف جسٹس باہم مل کر بھی وزیر اعظم کو ’’تھلے‘‘ لگانہیں سکتے۔ 1997ء میں ’’ہیوی مینڈیٹ‘‘ کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹتے ہی نواز شریف نے ویسے بھی اپنے اقتدارکے پہلے سو دن صدر اور چیف جسٹس کو ان کی ’’اوقات‘‘ تک محدود رکھنے میں صرف کردئے تھے۔بالآخر فاروق لغاری اور سجاد علی شاہ زچ ہوکر اپنے عہدوں سے مستعفی ہوگئے۔
2024ء میں سجاد علی شاہ کے ساتھ ہوا سلوک دہرانا نہایت مشکل ہے۔ ’’برادر ججوں‘‘ کی اکثریت ان دنوں کے چیف جسٹس سے متفق نہیں۔ صدر، وزیر اعظم اور ریاست کے طاقتور ترین ادارے پر مشتمل تکون مگر انہیں سجاد علی شاہ کی صورت گھربھیجنا نہیں چاہ رہی۔ ’’احتجاجی‘‘ غول اگر ’’500وکلاء‘‘ تک ہی محدود رہا تو کسی کام نہیں آئے گا۔ اسی باعث وزیر اعلیٰ خیبرپختونخواہ کو حکم دیا گیا ہے کہ جمعہ کے روز ایک بڑے ہجوم کے ساتھ اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچیں اور…فقرہ مکمل کرنے کے بجائے انتظار کو ترجیح دوں گا۔

نفرت اور گولی کی سیاست

Back to top button