پانچ IPPs سے معاہدے ختم کر کے عوام کو ماموں کیسے بنایا گیا؟

عمومی تاثر کے برعکس وفاقی حکومت کی جانب سے بجلی پیدا کرنے والے پانچ آئی پی پیز سے معاہدوں کے خاتمے کے باوجود بجلی کی قیمت اور صارفین کے بلوں میں ایک روپے کی بھی کمی آنے کا کوئی امکان موجود نہیں۔معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے یہ پانچ معاہدے صرف عوامی دباؤ کم کرنے کے لیے کیے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ سابق وفاقی وزیر گوہر اعجاز کی جانب سے اس مسئلے کو ہائی لائٹ کرنے کے بعد بہت زیادہ شور مچ گیا تھا اور حکومت بھی دباؤ کا شکار ہوئی۔ لہٰذا حکومت نے اس تنقید کو کم کرنے کے لیے فیس سیونگ کے لیے یہ قدم اٹھایا جس سے حکومت اور صارفین دونوں کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔

 یاد رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے توانائی کے شعبے میں بجلی پیدا کرنے والے پانچ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز کے ساتھ معاہدے ختم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے تاکہ صارفین پر بلوں کا بوجھ کم کیا جا سکے۔ یہ اعلان وزیر اعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ تاہم درحقیقت وزیراعظم اپنی عوام کو ماموں بنا رہے تھے کیوں کہ اس سے بجلی کے بل کم ہونے نہیں جا رہے۔ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والی اِن کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدے اُس وقت سے زیر بحث ہیں جب گزشتہ نگران کابینہ میں وزیرِ تجارت و داخلہ گوہر اعجاز کی جانب سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے ایک پیغام میں ان معاہدوں پر کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں ادا کی جانے والی رقوم پر تنقید کی گئی جو کئی سو ارب روپے بنتی ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں گذشتہ دو، تین برسوں میں بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ حکومت کے مطابق یہ اضافہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی شرائط کے تحت کیا گیا تاہم اس کے ساتھ کیپسٹی پیمنٹ کی وجہ سے بجلی صارفین سے بجلی کی کھپت سے زیادہ بل وصول کرنے کی شکایات بھی منظر عام پر آئیں۔

عوامی سطح پر تنقید کے بعد موجودہ حکومت کی جانب سے آئی پی پیز کے ساتھ ماضی میں کیے گئے معاہدوں پر نظر ثانی کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی گئی جس کی سفارشات کے بعد وزیراعظم کی جانب سے پانچ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ختم ہونے کا اعلان کیا گیا۔

حکومت کی جانب سے جن پانچ بجلی بنانے والی کمپنیوں کے ساتھ معاہدے ختم ہونے کا اعلان کیا گیا ہے ان میں حبکو پاور کمپنی، لائل پور پاور کمپنی، روش پاور، صبا پاور پلانٹ اور اٹلس پاور پلانٹ شامل ہیں۔ ان پانچ پاور پلانٹس کی بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت 2400 میگاواٹ ہے۔ ان کمپنیوں سے معاہدوں کے خاتمے کے بعد اب ان پاور پلانٹس کو کیپسٹی پیمنٹ کی ادائیگی نہیں کی جائے گی۔ لیکن واضح رہے کہ ان کمپنیوں کے ساتھ حکومتی معاہدے ویسے بھی ایک سے دو سال میں ختم ہونے والے تھے۔

پاکستان میں آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے معاہدوں پر سیاسی اور کاروباری حلقوں اور میڈیا پر کڑی تنقید کی گئی ہے جس میں ان معاہدوں کو عام افراد اور کاروباری اداروں کے لیے بجلی کی قیمت زیادہ ہونے کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا گیا۔ ان معاہدوں میں حکومت نے ضمانت دی تھی کہ وہ’ ٹیک آر پے‘ کے تحت بجلی کی قیمت ادا کرے گی یعنی کہ حکومت بجلی خریدے نہ خریدے وہ اس کی ادائیگی کرنے کی پابند ہو گی۔ کیونکہ ان پاور پلانٹس کے لیے بیرونی و اندرونی بینکوں اور مالیاتی اداروں سے قرضہ لیا جاتا ہے اس لیے کمپنیوں کو اس قرضے کی ادائیگی کے لیے حکومت کی ضمانت درکار ہوتی ہے تاکہ یہ کمپنیاں حکومت کی جانب سے بجلی خریدنے یا نہ خریدنے دونوں صورتوں میں بینکوں کو قرضوں کی ادائیگی کر سکیں۔‘

9 مئی کی طرز پر PTI کی دوسری عمرانی سازش کیسے ناکام ہوئی؟

اس وقت 101 آئی پی پیز کام کر رہے ہیں جن میں فرنس آئل پر چلنے والے کارخانوں کی تعداد 15، گیس اور آر ایل این جی پر چلنے والے پاور پلانٹس کی تعداد 19، پانی سے بجلی بنانے والے آئی پی پیز کی تعداد چار، درآمدی کوئلے پر چلنے والے پلانٹس کی تعداد تین، تھر کے کوئلے پر چلنے والے پلانٹس کی تعداد پانچ اور بیگاس پر چلنے والے پاور پلانٹس کی تعداد آٹھ ہے۔ جب کہ سورج کی روشنی سے بجلی بنانے والے پلانٹس کی تعداد 10 اور ہوا سے بجلی بنانے والے پلانٹس کی تعداد 36 ہے۔ پانچ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کے خاتمے کے بعد ملک میں باقی 96 آئی پی پیز بچ جائیں گے۔ ان آئی پی پیز میں حکومتی آئی پی پیز بھی شامل ہیں جن میں پانی اور نیوکلئیر ذرائع سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس بھی شامل ہیں۔

اب بڑا سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کی جانب سے پانچ آئی پی پیز سے معاہدوں سے خاتمے کے بعد کیا عوام کے لیے بجلی کی قیمت کم ہو گی؟ اور کیا اس سے حکومت کو کئی سو ارب روپے کی کیپسٹی پیمنٹ کی ادائیگی میں بچت ہو گی جس کا بوجھ صارفین کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کو موجودہ مالی سال میں 2000 ارب روپے سے زائد کی کیپسٹی پیمنٹ پاور کمپنیوں کو ادا کرنی ہے۔ لیکن اس سوال کا جواب نفی میں ہے یعنی 5 آئی پی پیز سے معاہدے ختم کیے جانے کے باوجود عوام کو بلوں میں ایک روپے کی بھی ریلیف نہیں ملے گی۔

بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان معاہدوں کے خاتمے سے کیپسٹی پیمنٹ میں کوئی قابل ذکر کمی نہیں آئے گی اور نا ہی صارفین کے بجلی کے بلوں میں کوئی خاص کمی آئے گی۔ وزیر اعظم کے کورآرڈینیٹر رانا احسان افضل نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ ’ان پانچ معاہدوں کے خاتمے سے فوری طرف پر صارفین کے بجلی کے بلوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی حالانکہ ان معاہدوں کے خاتمے سے بجلی کے فی یونٹ ٹیرف میں لگ بھگ ستر پیسے فی یونٹ کی کمی ہو گئی جب کہ اس سے ستر ارب روپے کی بچت ہو گی۔ تاہم یہ عمل جاری ہے اور حکومت دوسرے آئی پی پیز سے بھی معاہدوں پر نظر ثانی کے لیے مذاکرات کر رہی ہے۔ وزیراعظم کے کوارڈینیٹر نے کہا کہ چینی پاور پلانٹس کےساتھ قرضوں کی ری پروفائلنگ پر بات چیت جاری ہے جس میں پیش رفت کے بعد امید ہے کہ صارفین کے بجلی کے بلوں میں کمی آئے گی۔ انھوں نے کہا کہ ’پانچ کمپنیوں سے معاہدے ختم ہونے میں سب سے مثبت پیش رفت یہ ہے کہ ان کا خاتمہ دونوں فریقین کی باہمی رضا مندی سے ہوا۔

Back to top button