حکومت نے مولانا کا آئینی عدالت کی بجائے بینچ بنانے کا مطالبہ رد کر دیا
جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمان نے آئینی ترامیم کی منظوری کے حوالے سے حکومتی اقدامات کو کامیاب ہوتا دیکھ کر آئینی عدالت کی بجائے سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کی تشکیل کی نئی شدنی چھوڑ دی ہے۔ مبصرین کے مطابق حکومت ہر صورت 25 اکتوبر سے پہلے آئینی ترامیم کی منظوری کےلیے کوشاں ہے کیوں کہ اتحادی حکومت کبھی بھی نہیں چاہے گی کہ آئینی معاملات بھی اگلے چیف جسٹس منصور علی شاہ کے سپرد کر دیے جائیں۔ حکومت ہر صورت عمراندار جج کے پر کاٹ کر اسے کونے میں لگانا چاہتی ہے۔ اسی لیے حکومت نے مولانا کی جانب سے آئینی عدالت کے قیام کی بجائے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں آئینی بینچ کی تشکیل کی تجویز کو آئینی ترمیم کےمعاملے کو لٹکانے کی کوشش قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق حکومتی عزائم اس بات کے عکاس ہیں کہ وفاقی حکومت مولانا کی تجویز پر عملدرآمد کی بجائے پیپلز پارٹی اور اتحادی حکومتی جماعتوں کی مشاورت سے تیار کردہ آئینی ترامیمی مسودے کو ہی پارلیمنٹ سے منظور کروانے کی کوشش کرے گی اور حکومتی مائنس جے یو آئی حکمت عملی اس بات کی عکاس ہے کہ اتحادی حکومت اس بار دو تہائی اکثریت سے آئینی ترمیم منظور کروانے میں کامیاب ہو جائے گی۔
تاہم جے یو آئی ذرائع کے مطابق جمعیت علمائے اسلام نے آئینی ترامیم کے لیے اپنی تجاویز پر مشتمل مسودہ تیار کرلیا ہے جو مولانا فضل الرحمان کی منظوری کے بعد دیگر سیاسی جماعتوں کو فراہم کیا جائے گا۔جے یو آئی ف کے ذرائع کے مطابق آئینی ترامیم کے لیے تجاویز پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ ن سمیت تمام جماعتوں کے ساتھ شیئر کی جائیں گی ذرائع کا کہنا ہے کہ آئینی ترامیم کے لیے جے یو آئی ف کے تجویز کردہ مسودے میں ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد بڑھانے کی تجویز شامل نہیں ہے جبکہ آرٹیکل 8، فوجی عدالتوں، ہائیکورٹس کے ججوں کے تبادلوں اور آئینی عدالت کے قیام کی تجاویز کو بھی حذف کردیا گیا ہے۔جے یو آئی ف کی تجویز کردہ آئینی ترامیم میں کسی بھی قسم کی قانون سازی خواہ قومی یا صوبائی اسمبلی سے منظور کروانے سے قبل اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے لینا ضرور قرار دی گئی ہے۔
جے یو آئی کے آئینی ترامیم بارے تیار کئے گئے مسودے میں آئینی عدالت کی بجائے سپریم کورٹ میں 5 رکنی آئینی بینچ کی تشکیل کی تجویز شامل کی گئی ہے تجویز کے مطابق آئینی بینچ چیف جسٹس آف پاکستان اور 4 سینیئر ججوں پر مشتمل ہوگا۔ جے یو آئی کی تجاویز میں ججوں کی تقرری میں پارلیمانی کمیٹی کو بااختیار بنانے کی تجویز بھی شامل ہے جس میں پارلیمانی کمیٹی کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ ججوں کی تقرری میں جوڈیشل کمیشن کی رائے کو مسترد کرسکے۔ذرائع کے مطابق جے یو آئی نے آئینی ترامیم سے متعلق اپنے مسودے میں ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد 68 سال تک بڑھانے اور ملٹری کورٹس کی تشکیل کی تجویز مسترد کردی ہے جب کہ علیحدہ سے آئینی عدالت کا قیام بھی جے یو آئی کی تجاویز میں شامل نہیں۔
اسلام آباد میں احتجاج کی ناکامی سے عمران کو دھچکا، کارکنان مایوس
دوسری جانب آئینی ترامیم کے حوالے سے حکومت کی تائید بارے سامنے آنے والی خبروں بارے جے یو آئی سینیٹر کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ ایوان صدر میں ہونے والی سیاسی راہنمائوں کی ملاقات میں مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے یہ تاثر درست نہیں کہ انہوں نے آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے پر آمادگی یا یقین دہانی کرائی ہے اس حوالے سے جمعیت علمائے اسلام جو تحفظات اور خدشات رکھتی ہے وہ بدستور موجود ہیں، تاہم ان پر مشاورت، سفارشات اور تجاویز پر تبادلہ خیال جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایوان صدر میں فلسطینی عوام سے یکجہتی کے حوالے سے ہونے والی اے پی سی کے بعد تمام سیاسی راہنمائوں کا آئینی ترامیم کے حوالے سے تبادلہ خیال ضرور ہوا تھا اور اس دوران مولانا نے نہیں بلکہ صدر زرداری اور نواز شریف نے مولانا فضل الرحمان کو ساتھ لیکر چلنے کی یقین دہانی کرائی تھی، جبکہ اس حوالے سے مولانا فضل الرحمان نے معاملے کو مکمل آئینی عدالت میں بھیجنے کے بجائے پانچ یا چھ رکنی آئینی بنچ بنانے کی تجویز دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر ہمیں آئینی ترامیم بارے کسی مسودے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارے پاس آئینی ترمیم کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ پہلے ایک تجویز ہمارے ساتھ ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے شیئر کی تھی۔ پھر ہم نے جوابی تجویز پیش کی جس میں 23 شقیں ہیں۔ یہ مسودہ مولانا کے پاس ہے، تاہم یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کہ مولانا صاحب نے آئینی ترمیم بارے حکومت کی حمایت پر اتفاق کیا ہے۔ جے یو آئی کے آئینی ترمیم بارے تحفظات اور اعتراضات تاحال برقرار ہیں۔
تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ جے یو آئی کی جانب سے نت نئے مطالبات اور تجاویز سامنے آنے کے بعد حکومت نے ترمیم کی منظوری کیلئے مائنس جے یو آئی حکمت عملی بنا لی ہے۔ تاہم اتحادی حکومت نے آئینی ترمیم بارے جے یو آئی کی تجاویز پر انھیں شٹ اپ کال دینے کی بجائے ان سے مذاکراتی عمل جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ ذرائع کا دعوی ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس 18 اکتوبر کو بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے وزارت پارلیمانی امور نے 18 اکتوبر کو اجلاسوں کی سمری تیار کرلی۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس الگ الگ بلائے جائیں گے، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اہم آئینی ترمیم لائی جائیں گی۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ حکومت کے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل سے بھی رابطے جاری ہیں، امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ سینیٹ میں اختر مینگل کی جماعت کے دونوں ووٹ حکومت کو ملیں گے۔