پاکستانی تیندوا امریکہ میں کرونا کے خطرے سے دوچار

امریکہ میں کرونا وائرس سے بری طرح متاثرہ شہر نیویارک کے برونکس چڑیا گھر میں نادیہ نامی ایک ملائشین مادہ ٹائیگر میں مہلک وائرس کی تصدیق کے بعد اسی چڑیا گھر میں گزشتہ 14 برسوں سے پلنے والے لیو نامی پاکستانی تیندوے کے بارے میں پاکستانی گہری تشویش میں مبتلا ہو گے ہیں۔
ماضی میں پاکستانی حکام کئی مرتبہ امریکی حکام سے لیو کی وطن واپسی کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ تاہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ نیویارک کے سرد موسم کے عادی ہو جانے والے لیو کو اب پاکستان میں رکھنا مشکل ہے کیونکہ یہاں ایسی سہولت دستیاب نہیں۔ تاہم پاکستانی عوام کی بڑی تعداد یہ چاہتی ہے کہ لیو کو امریکہ سے پاکستان واپس لایا جائے۔
لیو کی امریکہ منتقلی کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ 14 جولائی 2005 کو گلگت بلتستان کی وادی نلتر کے ایک چرواہے کوایک برفانی تیندوے کا چھوٹا سابچہ ملا، جس کی ماں اور ایک بہن حادثاتی طور پر مر چکی تھیں۔ یہ نر تیندوا صرف چند ہفتوں کا تھا۔ اتنے چھوٹے تیندوے کو کسی چڑیا گھرمیں رکھنے اور اسے سنبھالنے کے حوالے سے چڑیا گھر کے عملے کو کوئی تجربہ اور تربیت نہیں تھی۔ اس بچے کو جسے ’لیو‘ کا نام دیا گیاتھا، جنگل میں واپس چھوڑنے کا مطلب اسے موت کے منہ میں ڈالنا تھا کیونکہ ابھی وہ اپنی بقا کے بنیادی اصولوں سے ناواقف تھا۔ ویسے بھی عام حالات میں تیندوے اٹھارہ سے بائیس ماہ کا عرصہ اپنی ماں کے ساتھ گزارتے ہیں اور جنگلی حیات کے داﺅ پیچ سیکھتے ہیں۔
اس مسئلے کا کوئی موزوں حل تلاش کرنے کے لیے وزارت ماحولیات، بقائے ماحول کی عالمی انجمن آئی یو سی این اورجنگلی حیات کے لیے کام کرنے والے دیگر ادارے سر جوڑ کر بیٹھے کہ کیسے اس ننھے تیندوے کی حفاظت کا بندوبست کیا جائے کیونکہ پاکستان کے کسی بھی چڑیا گھرمیں ایسی کوئی سہولت موجود نہیں تھی۔ اس معاملے کی حساسیت کا ایک پہلویہ بھی تھا کہ برفانی تیندووں کی نسل کو کم یاب ہونے کے باعث عالمی سطح پر تحفظ حاصل ہے۔ آئی یو سی این کی مرتب کردہ ’ریڈ لسٹ‘ میں انھیں بقا کے شدید خطرے سے دوچار جانوروں میں شامل کیا گیا ہے۔ملکی سطح پر عدم سہولیات کے پیش نظر لیو کی بقا کے لیے یہ تجویز قابل عمل سمجھی گئی کہ اسے افزائش کے لیے عارضی طور پر کسی ایسے عالمی ادارے کے سپرد کیا جائے جہاں یہ ماہرین کے زیر سایہ پروان چڑھے۔ اس مقصد کے لیے نیویارک میں قائم برونکس چڑیا گھر سے بہتر کوئی مقام نہیں تھا۔ چنانچہ لیو کو عارضی طور پر برونکس، امریکہ بھجوا دیا گیا۔ اس سلسلے میں حکومت پاکستان نے لیو کے تحفظ لیے وائلڈ لائف کنزرویشن سوسائٹی سے معاہدہ کیا جو دنیا بھر میں جنگلی حیات کے تحفظ کے حوالے سے ایک اہم ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی سوسائٹی کے زیر انتظام نیویارک کے برونکس پارک میں برونکس چڑیا گھر 1899 میں قائم کیا گیا اور یہ دنیا کے بہترین چڑیا گھروں میں سے ایک ہے۔ یہ 265 ایکڑ کے وسیع رقبے پر گھنے جنگلات، پہاڑوں، غاروں، جھیلوں اور دریا کنارے پر مشتمل ہے۔
لیکن اب کرونا وائرس سے جانوروں کے متاثر ہونے بالخصوص برونکس چڑیا گھر کی مادہ ٹائیگر میں کرونا وائرس کی تصدیق کے بعد لیو کی سلامتی کے حوالے سے پاکستان کے وائلڈ لائف لوورز میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ لیو کی صحت کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے ماحولیات ملک امین اسلم کا کہنا تھا کہ وہ دو تین بار برونکس کے چڑیا گھر لیو سے ملنے جاچکے ہیں اورلیو وہاں بہت اچھی حالت میں ہے۔ کہتے ہیں کہ ہم فکرمند ضرور ہیں مگر یقین ہے کہ برونکس چڑیا گھر کی انتظامیہ اس کا بہتر خیال رکھے گی اور تمام حفاظتی اقدامات کو ممکن بنایا جائے گا، اس حوالے سے ہم ان سے رابطے میں ہیں۔ جنگلی حیات سے محبت کرنے والے حلقوں میں لیو کی واپسی کی خواہش تو موجود ہے مگر یہ فکر بھی ہے کہ اب شاید وہ پاکستان کے موسموں سے خود کو ہم آہنگ نہ کرپائے۔ البتہ یہ یقین ضرور ہے کہ امریکا کے چڑیا گھر میں پاکستان سے بہتر حالت میں رکھا گیا ہو گا۔
دنیا بھر میں لیو کے کیس کو جنگلی حیات کے تحفظ کے حوالے سے ایک مثالی کیس مانا جاتا ہے۔ جس تقریب میں لیو کو امریکا کے حوالے کیا گیا تھا اس تقریب میں پاکستان کی جانب سے وفاقی وزیر ملک امین اسلم اور پاکستان میں اس وقت کے امریکی سفیر ریان سی کرو بھی موجود تھے۔ آئی یو سی این کے ذرائع کے مطابق امریکی سفیر نے اسے کنزرویشن ڈپلومیسی قرار دیا تھا۔چند سال پہلے جب لیو خیر سے باپ بنے تو امریکی اخبارات نے اس پر بہت سے مضامین شائع کیے تھے اور دونوں ملکوں کے سفارتی ذرائع نے اس پر خوشی کا اظہار بھی کیا تھا۔ پاکستان کے وائلڈ لائف حکام کا کہنا ہے کہ لیو امریکہ کے پاس ہماری امانت ہے اور مناسب وقت پر انھیں اسے لوٹانا ہی ہوگا۔ پہاڑوں کے اس شہزادے کو ایک دن اپنی راجدھانی میں واپس آنا ہی ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button