پاکستانی پائلٹ راشد منہاس کا طیارہ کیسے ہائی جیک ہوا؟
پاکستانی افواج کی ملک کے دفاع کیلئے لازوال قربانیوں کا اعتراف دنیا بھر میں کیا جاتا ہے، محاذ بری ہو، بحری ہو یا پھر فضائی پاک جوان دشمن پر دھاک بٹھانے میں کبھی نہیں چوکتے، ایسی ہی تاریخ پائلٹ راشد منہاس نے بھی رقم کی جب ان کے طیارے کو فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمٰن نے 1971 کی جنگ میں مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کے خلاف بغاوت کے طور پر اغوا کر لیا اور بھارت لے جانے کی کوشش کی مگر راشد منہاس طیارے کو بھارتی سرحد کے قریب گرانے میں کامیاب رہے اور جام شہادت نوش کر کے سرخرو ہوئے۔یہ بنگلہ دیش کی آزادی سے چار ماہ قبل کی بات ہے جب پاکستانی فضائیہ میں لڑاکا طیاروں کے پائلٹوں کو تربیت دینے والے فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمٰن نے 1971 کی جنگ میں مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) کے خلاف بغاوت کی۔مطیع الرحمن نے 1971 کی جنگ کے دوران کراچی سے پاکستانی فضائیہ کا لڑاکا طیارہ اغوا کر کے انڈیا لے جانے کی کوشش کی مگر وہ اس کوشش میں ناکام رہے اور طیارہ انڈیا کی سرحد کے قریب گر کر تباہ ہوگیا، مطیع الرحمن کا تعلق مشرقی پاکستان کے ایک متوسط خاندان سے تھا، وہ 21 فروری 1945 کو ڈھاکہ کے قریب رمنا نگر میں پیدا ہوئے، دوسری طرف راشد منہاس تقسیم ہند کے بعد فروری 1951 کو کراچی میں پیدا ہوئے اور 1969 میں انھوں نے پی ایف اے اکیڈمی رسالپور کو جوائن کیا جہاں انھیں ہارورڈ اور ٹی 37 طیارے اڑانے کی تربیت دی گئی، پاکستانی ایئر فورس کے تاریخ دان قیصر طفیل اپنی ایک تحریر ’بلیو برڈ 116 از ہائی جیکڈ‘ میں لکھتے ہیں کہ کراچی میں تعینات بنگالی افسروں کو احساس ہو گیا تھا کہ پاکستانی انٹیلی جنس اُن پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ان بنگالی افسران نے طے کیا کہ وہ ایئر بیس پر موجود افسران کے ساتھ دوستانہ تعلقات جاری رکھیں گے اور کھلے بندوں آپس میں کبھی ایک ساتھ نہیں ملیں گے لیکن اندر ہی اندر یہ منصوبہ بنا کہ وہ پاکستانی جنگی طیارے کو ہائی جیک کر کے انڈیا لے جائیں گے، مطیع الرحمٰن کے متعلق پاکستانی حکام کا دعویٰ رہا ہے کہ 20 اگست کو جب راشد منہاس مطیع الرحمن کے ساتھ تربیتی پرواز پر تھے، تو مطیع الرحمن نے انھیں طیارے میں خرابی کا اشارہ کیا اور انھیں ’کلوروفام‘ سنگھا کر نیم بے ہوش کر دیا۔اسی دوران مطیع الرحمٰن نے زمین پر موجود اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ ان کے اہلخانہ کو کراچی میں انڈین ہائی کمیشن پہنچائیں کیونکہ وہ پاکستانی ایئرفورس کا طیارہ انڈیا لے کر جا رہے ہیں۔کتاب ’مون گلیڈ‘ کے مطابق 20 اگست 1971 کو راشد منہاس تنہا ٹی 33 کی دوسری پرواز کے ٹیک آف کے لیے تیار تھے۔ انھوں نے انجن چلایا اور تمام حفاظتی تدابیر کی یقین دہانی کی۔ گراؤنڈ پر عملے نے انھیں ’تھمبز اپ‘ کا اشارہ کیا، یعنی وہ اڑان بھر سکتے تھے جیسے ہی انھوں نے اڑان بھرنے کی تیاری پکڑی تو ’ایک بنگالی انسٹرکٹر پائلٹ فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمن نے انھیں رُکنے کا اشارہ کیا مطیع (کھلی ہوئی کینوپی کے ذریعے) پچھلے کاکپٹ سے زبردستی اندر داخل ہوئے، طیارے کا کنٹرول چھین لیا اور اڑان بھر کے طیارے کا رخُ انڈیا کی طرف کر لیا۔مطیع الرحمٰن خاصے تجربہ کار پائلٹ تھے اور انھوں نے ریڈار سے بچنے کے لیے نچلی سطح پر پرواز کی جس کی بدولت پیچھے روانہ کیے گئے طیارے انھیں تلاش نہ کر سکے، ایئر انویسٹی گیشن بورڈ کی تحقیقات میں کہا گیا کہ پرواز کے دوران کینوپی کو لاک نہیں کیا گیا تھا۔ وہ باہری ہوا کے دباؤ میں کچھ دیر اپنی جگہ رہی پھر پرواز کے دوران اڑ گئی اور یہ طیارے کے پچھلے حصے سے ٹکرائی جس سے طیارہ ناک کے بل نیچے گرا۔شاید اسی وجہ سے مطیع کاکپٹ سے باہر جا گرے کیونکہ انھیں سیفٹی بیلٹ باندھنے کا وقت نہیں مل سکا تھا۔ ایئر انویسٹیگیشن بورڈ کے سربراہ گروپ کیپٹن ظہیر حسین کا بھی ماننا تھا کہ نوجوان اور کم تجربہ کار راشد منہاس کاکپٹ میں فریز ہو گئے ہوں گے، جب اس وقت کے فوجی صدر یحییٰ خان کو پوری کہانی سنائی گئی تو انھوں نے کہا کہ یہ لڑکا نشان حیدر سے کم کا حقدار نہیں۔مطیع کی باقیات کو ابتدا کو پاکستان کے شہر کراچی میں سپرد خاک کیا گیا تھا تاہم بنگلہ دیش کی حکومت کے مطالبے پر 2006 میں پاکستان نے مطیع الرحمن کی باقیات بنگلہ دیش کو واپس کیں اور بنگلہ دیش کے قیام کے 35 سال بعد انھیں ڈھاکہ میں فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔