پاکستان کا قومی مفاد وقت کے ساتھ بدلتا کیوں رہتا ہے؟
آج قومی مفاد یہ بتایا جا رہا ہے کہ ہم نے افغانستان میں مداخلت نہیں کرنی۔ گزرے سالوں میں قومی مفاد یہ تھا کہ ہم نے افغانستان میں بھرپور مداخلت کرنی ہے۔ آج قومی مفاد یہ ہے کہ ہندوستان سے تعلقات میں بہتری ہمارے فائدے کی بات ہے۔ کل تک ہندوستان ہمارا ازلی دشمن تھا۔ آج قومی مفاد ہے کہ امریکہ کے ساتھ برابری کے تعلقات ہونے چاہئیں۔ زیادہ وقت نہیں گزرا‘ جب ہم امریکہ کی ہر شے ماننے کو ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ اس تناظر میں یہ پوچھنا بنتا ہے کہ قومی مفاد چیز کیا ہے اور اس کا تخلیق کار کس کو ہونا چاہئے؟ ان خیالات کا اظہار سینیئر صحافی ایاز میر نے اپنے تازہ تجزیے میں کیا ہے۔
ایاز امیر کے سوال کرتے ہیں کہ جب جنرل ضیا الحق اور اُن کے ساتھیوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہمارا قومی فریضہ بنتا ہے کہ افغانستان میں لگی ہوئی آگ کو ہم نے مزید بھڑکاناہے تو اُن کو کس کی تائید حاصل تھی؟ کیا اُنہوں نے قوم سے اجازت لی تھی یا یہ اُن کا اپنا ہی فیصلہ تھا؟ بہرحال وہ سیاہ وسفید کے مالک تھے اور اُنہی کے فیصلے قومی مفاد کہلاتے تھے۔ پاکستان نے نہ صرف افغانستان کی آگ بھڑکائی بلکہ اپنے لیے امریکہ کا پٹھو بننا ایک اعزاز سمجھا۔ اس زمانے میں اسلحہ اور ڈالر امریکہ سے آتے تھے اور پاکستانی اداروں نے ان کی تقسیم کا ذمہ اپنے سر لیا ہوا تھا۔ اس زمانے میں یہ اولین قومی مفاد تھا اور اس پر سوال اُٹھانا غداری کے مترادف تھا۔
لیکن ایاز امیر کہتے ہیں کہ آج حالات بدل چکے ہیں اور امریکہ افغانستان سے بھاگ رہا ہے۔ اب ہم افغانستان میں مداخلت کرنا بھی چاہیں تو کیا کریں گے؟ ہماری مداخلت کی اوقات ہی نہیں رہی لہٰذا اب قومی مفاد نے ایک نئی کروٹ لی ہے اور اب ہم پر یہ راز منکشف ہوا ہے کہ افغانستان میں مداخلت کرنا اپنی ہی تباہی کا راستہ ہے۔ اگر کچھ عرصہ پہلے ہم پر یہ راز کھل جاتا تو ہم بہت بڑے نقصانات سے بچ جاتے۔ ایاز امیر کہتے ہیں کہ ہندوستان سے ہمارے تعلقات کبھی دوستانہ نہ تھے لیکن تقسیم ِ ہند کے کئی سال بعد تک ہندوستان سے ہمارے معمول کے تعلقات تھے۔ کشمیر کا تنازع ضرور تھا اور اُس پر ہم ایک جنگ بھی لڑچکے تھے لیکن پھر بھی آنا جانا تھا‘ کچھ تجارت تھی اور کسی نہ کسی سطح پہ بات چیت بھی ہوتی رہتی تھی۔ لیکن سارا کام خراب کیا 1965 کی جنگ نے۔ بھارت سے باقاعدہ جنگ کا آغاز ہم نے نہیں کیا تھا لیکن کشمیر میں چھیڑخانی کا آغاز ہم نے ضرور کیا تھا۔ اس سے حالات بگڑے اور باقاعدہ جنگ تک پہنچ گئے۔ قوم کو سوچنے کا موقع ہی نہ دیا گیا کہ یہ جنگ کیسے شروع ہوئی ہے اور اس کے اصل محرکات کیا ہیں۔ قوم کو فقط یہ بتایا گیا کہ مکار دشمن نے بلاوجہ اور بلااشتعال پاکستان پر حملہ کردیا ہے۔ نورجہاں کی مسحور کن آواز میں ادا کئے گئے قومی نغموں نے ہماری عقل کے دروازے مزید بند کردیے۔ جنگ کا نتیجہ کیا نکلنا تھا‘ جیت ہار کسی کی نہ ہوئی لیکن دشمنی کی ایک نئی بنیاد ڈال دی گئی۔
ایاز امیر کہتے ہیں کہ آج کے ہندوستان پاکستان کے تعلقات تقسیم ہند کا شاخسانہ نہیں ہیں، یہ دشمنی 1965ء کی جنگ کی پیداوار ہیں۔ لیکن پاکستانی قوم وفادار ٹھہری۔ اُسے قومی۔مفاد میں جو کہا گیا وہ اُس نے کیا اور جو نعرے اُسے دیے گئے وہی نعرے اُس نے جذبات سے بھری آوازوں میں لگائے۔ اُس جنگ کا سب سے بڑا نقصان اس کے خالق جنرل ایوب خان کو ہوا۔ ملک کو جو نقصان ہونا تھا وہ توہوالیکن جنرل ایوب کی شخصیت بھی ہل کر رہ گئی۔ بتدریج اُن کے زوال کے دن سامنے آنے لگے۔ جنگ کا سب سے بڑا فائدہ ذوالفقار علی بھٹو کو پہنچا جو ایک عوامی ہیرو کی شکل میں اُبھرے۔
لیکن 1965 کی پاک بھارت جنگ کے 55 برس بعد ہمیں دھیرے دھیرے یہ عقل آرہی ہے کہ ازلی دشمنی رکھنا اور وہ بھی اپنے سب سے بڑے ہمسایے کے ساتھ، کوئی دانائی کی بات نہیں۔البتہ یہ ہماری بدقسمتی سمجھی جائے گی کہ 1965ء میں قومی مفاد کی تشریح فردِ واحد کے ہاتھوں میں تھی۔
ایاز امیر کا کہنا ہے کہ جنرل ایوب کی حالت تو یہ تھی کہ اُنہوں نے 1965 کا پنگا لینے سے پہلے اپنے فوجی کمانڈرز سے بھی مشورہ نہیں کیا تھا۔ تب کے ایئر فورس کے کمانڈر اِن چیف ایئرمارشل نور خان کو بھی نہیں معلوم تھا کہ قوم کو جنگ کی طرف دھکیلا جار ہاہے۔ آج اگر ہمیں دھیرے دھیرے عقل آرہی ہے تو اُس کی بڑی وجہ ہمارے مخدوش حالات ہیں۔ انہی مخدوش حالات کی وجہ سے یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ بیکار کی دشمنیاں گھاٹے کا سودا ہیں۔ ایک اور جنگ کا قصہ بھی سبق آموز ہے۔ جنرل مشرف جب فوج کے سربراہ تھے تو انہوں نے کارگل معرکہ کے بارے میں اپنے تمام کور کمانڈروں کو بھی اعتماد میں نہیں لیا۔ بس دو تین اعلیٰ عہدوں پہ فائز شخصیات تھیں جو اس راز میں شامل تھیں۔ افسوس کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑتا ہے کہ تب کے وزیراعظم نوازشریف کو بھی حالات کی سنگینی کا بروقت احساس نہ ہوا۔ جب انکو پہلی بریفنگ دی گئی تو اُنہیں مشرف سے یہ پوچھنا چاہئے تھا کہ تمہیں فوجی پیش قدمی کی اجازت کس نے دی ہے۔ جنرل مشرف کو فارغ کرنا تھا تو تب کرتے۔ اُس وقت ایسا کرنے پہ ردعمل بھی نہ ہوتا کیونکہ ادارے میں خود حیرانی تھی کہ یہ معرکہ کن وجوہات کی بنا پر شروع کیا گیا ہے۔
ایاز امیر کے مطابق بجائے صحیح سوال کرنے کے نوازشریف نے یہ پوچھا کہ کیا ہم سرینگر پہ قبضہ کر لیں گے؟ اس سوال کا جواب کسی بڑھک کی صورت میں ہی دیا جا سکتا تھا اور اُس بریفنگ میں زیادہ تر بڑھکیں ہی ماری گئیں۔ یہ اور بات ہے کہ جب میدانِ جنگ کے حالات خراب ہوئے تو پاکستان کو مجبوراً صدر کلنٹن کی منت کرنا پڑی کہ بیچ میں آئیں اور جنگ بندی کرائیں۔ کلنٹن کا جواب تھا کہ واشنگٹن آنا ہے تو ضرور آؤ لیکن اس ضمانت کے ساتھ کہ پیش قدمی ختم کی جائے گی۔ ہماری یقین دہانی کے بعد ہی نوازشریف کو اجازت ملی کہ وہ واشنگٹن آئیں۔
چنانچہ ایاز امیر سوال کرتے ہیں کہ قوم کو یہ تو بتایا جائے کہ قومی مفاد نامی چیز کا ٹھیکہ کس کے ذمے ہونا چاہئے۔ نائن الیون کے بعد امریکیوں نے جنرل مشرف سے کچھ مطالبات کئے۔ تب کے امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے ایک فون کال کی۔ امریکی بھی حیران رہ گئے جب کسی چون و چرا کے بغیر ہم نے سب مطالبات مان لئے۔ تب یہی قومی مفاد ٹھہرا تھااور قوم کو باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان کے سامنے اور کوئی راستہ نہ تھا۔ آج جس لہجے میں ہم امریکہ کے بارے میں بات کررہے ہیں وہ بہت اچھا ہے لیکن کاش ایسا لہجہ ہم کچھ پہلے اپنا لیتے۔ عراق جنگ کے حوالے سے امریکہ نے ترکی سے بھی کچھ مطالبات کئے تھے لیکن ترکی کا مؤقف تھا کہ ہمیں اپنی پارلیمنٹ سے رجوع کرنا پڑے گا۔ پارلیمانی بحث کے بعد ترکی نے یہ مطالبہ کیا کہ اگر امریکہ کو زمینی راستہ چاہئے تو اس کے عوض پچیس بلین ڈالرز ترکی کو دیے جائیں۔ یوں امریکی چپ ہو گئے اور بات وہیں ختم ہو گئی۔ایاز امیر کہتے ہیں کہ ہمیں خود میں کچھ تو ٹھہراؤ پیدا کرنا ہو گا۔ ہم تنگ دل ہوں تو اتنے بھی تنگ دل نہ ہوں اور دل پھینک ہوں تو اتنے بھی نہیں کہ سب کچھ کھول کے رکھ دیں۔