میڈیا دشمن حکومت کے دور میں سات صحافی قتل ہو چکے

نئے پاکستان میں آزاد میڈیا کا گلا تو گھونٹا ہی جا رہا ہے لیکن صحافیوں کا قتل عام بھی جاری ہے۔ صحافیوں کے حقوق کیلئے سرگرم غیر سرکاری تنظیم فریڈم نیٹ ورک نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران سات صحافیوں کو قتل کیا گیا جبکہ 12 ماہ کے دوران صحافیوں کو ہراساں کرنے کے 91 واقعات رونما ہوئے۔ ریاستی اداروں کی پشت پناہی میں ہرمہینے پاکستان میں اوسطا سات صحافیوں پر تشدد کے واقعات بھی ریکارڈ کئے گئے۔ پاکستان میں گذشتہ سال اپریل سے میڈیا کے نمائندوں کے خلاف حملوں کے 91 واقعات منظر عام پر آئے جن میں سات صحافیوں اور ایک بلاگر کے قتل سمیت کئی پر تشدد کارروائیاں شامل ہیں۔
صحافیوں کے تحفظ کے لیے سرگرم غیرسرکاری تنظیم فریڈم نیٹ ورک نے ’قتل، ہراساں کیے جانا اور حملے: پاکستان میں صحافیوں کے لیے مشکلات‘ کے عنوان سے پاکستان پریس فریڈم رپورٹ 20-2019 شائع کی ہے۔ رپورٹ کہتی ہے پاکستان میں میڈیا کی آزادی اور معلومات تک رسائی کے حوالے سے صحافیوں کو مسلسل دھمکایا اور ہراساں کیا جا رہا ہے۔ اس بارے گفتگو کرتے ہوئے فریڈم نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں صحافت کو کنٹرول کرنے کی غرض سے سینسرشپ کے مختلف طریقے استعمال کیے جا رہے ہیں جن میں صحافیوں کا قتل، انہیں دھمکیاں دینا اور ہراساں کرنا شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں میں کوئی بھی جگہ صحافیوں کے لیے محفوظ نہیں ہے۔ ان پر حملے ہر جگہ ہو رہے ہیں اور حیران کن بات یہ ہے کہ ریاست اور اس کے اداروں کا ان حملوں کے پیچھے نمایاں کردار نظر آتا ہے۔‘
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے چاروں صوبوں سمیت اسلام آباد میں مئی 2019 سے لے کر اپریل 2020 تک صحافیوں اور میڈیا پریکٹیشنرز کے خلاف حملوں اور خلاف ورزیوں کے 91 واقعات درج ہوئے ہیں۔ ان اعدادوشمار کے مطابق ہر ماہ اوسطاً سات واقعات یا ہر چوتھے دن ایک واقعہ یا ہر ہفتے میں دو واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ان خلاف ورزیوں میں سات صحافیوں کا قتل، دو کا اغوا، نو کی گرفتاری اور 10 پر حملے سامل ہیں، ان 91 واقعات میں زبانی دھمکیوں کے 23 واقعات، سینسرشپ کے 10 اور قانونی کارروائیوں کے آٹھ کیسز بھی شامل ہیں۔
پاکستان بھر میں اسلام آباد صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک کام کرنے والی جگہ بن کر سامنے آیا ہے کیونکہ ملک میں ریکارڈ کئے گئے صحافیوں پر تشدد کے 91 میں سے 31 واقعات اسلام آباد میں ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد سندھ دوسرے نمبر پر آتا ہے جہاں پچھلے ایک سال میں 24 کیس ریکارڈ ہوئے جبکہ پنجاب میں 20، خیبر پختونخواہ میں 13 اور بلوچستان میں تین کیس منظر عام پر آئے ہیں۔
91 میں سے 63 واقعات ٹیلی ویژن کے صحافیوں کے خلاف ریکارڈ کیے گئے۔ پرنٹ میڈیا دوسرے نمبر پر تھا جس کے 25 کیس سامنے آئے جبکہ آن لائن صحافیوں کے تین کیس منظر عام پر نظر آئے۔
تشدد اور ہراسیت کا سامنا کرنے والے اکثر میڈیا اراکین اور ان کے خاندان والوں کا ماننا ہے کہ صحافیوں کے خلاف واقعات میں ریاست اور اس کے ادارے ملوث ہیں۔ واضح رہے کہ موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے پاکستان میں صحافتی آزادیاں ہر گزرتے دن کے ساتھ محدود کی جارہی ہیں جس کی نشاندہی اب بین الاقوامی صحافتی تنظیمیں بھی کر رہی ہیں۔ بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی سالانہ درجہ بندی کے مطابق پاکستان میڈیا کی آزادیوں کے اعتبار سے تین درجہ نیچے آیا ہے۔
دنیا بھر میں آزادی اظہار کو یقینی بنانے کے لئے کام کرنے والی تنظیم رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق پاکستان 180 ممالک میں سے مزید 3 درجے تنزلی کے ساتھ 145 نمبر پر پہنچ گیا ہے جس کی بنیادی ذمہ داری پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ پر عائد ہوتی ہے۔ رپورٹ میں کہاگیا کہ 2019 میں رپورٹنگ کرتے ہوئے 4 صحافی قتل ہوئے جبکہ ایک صحافی کو 2020 میں قتل کیا گیا اور تقریباً ایک دہائی سے یہ صورتحال ہے کہ صحافیوں کے خلاف جرائم اور مجرموں کو مکمل استثنیٰ حاصل ہے۔ آر ایس ایف کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا جو کہ روایتی طور پر ایک طویل عرصے تک آزاد تھا اب ملک کی ’ڈیپ اسٹیٹ‘ کا ترجیحی ہدف بن چکا ہے۔
اپنی رپورٹ میں آر ایس ایف نے مزید کہا کہ جولائی 2018 میں جب سے عمران خان ملک کے وزیراعظم بنے ہیں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اثر رسوخ میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے، اور سخت میڈیا سینسر شپ کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا یے۔ فوج نے میڈیا پر دباؤ کے لیے مختلف طریقے استعمال کیے، اخبارات بالخصوص روزنامہ ڈان کی ترسیل میں مداخلت کی گئی اور ڈان نیوز چینل کی نشریات بھی روکے جانے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button