نواز شریف، عمران خان کی دوستی، سیاسی دشمنی میں کیسے بدلی؟

پاکستانیوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا، کہ موجودہ دور کے سب سے بڑی سیاسی حریف مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان 1992 میں ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ رکھے خوش گپیاں بھی لگاتے رہے ہیں۔یہ اسلام آباد میں وزیراعظم ہاؤس کا منظر ہے، ایک غیر ملکی صحافی شیروانی میں ملبوس ملک کے وزیراعظم سے اُن ہی کے ساتھ کھڑے شخص کے بارے میں سوال کرتا ہے ’کیا آپ کو اس جوان لڑکے پر فخر ہے؟‘صحافی کے سوال پر وزیراعظم جواب دیتے ہیں ’بالکل، انھوں نے بہت اچھا کر کے دکھایا۔‘صحافی پھر سے سوال کرتا ہے کہ اگر یہ سیاست میں جانے کا فیصلہ کریں تو شاید بہتر ہوگا کہ آپ اُن کو اپنے ساتھ رکھیں؟ اس سوال پر ایک قہقہ بلند ہوتا ہے لیکن وزیراعظم انتہائی سنجیدگی سے ساتھ کھڑے شخص کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ ’میں نے اسے بہت عرصہ پہلے پیشکش کی تھی لیکن اس نے انکار کر دیا۔ میں نہیں جانتا کیوں۔‘یہ واقعہ 1992 کا ہے جب نواز شریف ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے اعزاز میں ایک تقریب کے دوران عمران خان کے حوالے سے یہ گفتگو ’سکسٹی منٹس آسٹریلیا‘ نامی پروگرام کے میزبان سے کر رہے تھے جو ’عمران خان: اے لیونگ گاڈ‘ نامی خصوصی پروگرام کرنے پاکستان آئے تھے۔لگ بھگ 32 سال قبل کا یہ منظر اس وقت کا ہے جب 40 سالہ عمران خان اپنے کرکٹنگ اور 43 سالہ نواز شریف اپنے سیاسی کیریئر کے عروج پر پہنچ چکے تھے۔شاید اس وقت ان دونوں سمیت کسی کے گمان میں نہ ہو گا کہ ایک دن یہ شخصیات پاکستانی سیاست کا محور اور شدید سیاسی حریف بن جائیں گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاست کے یہ حریف کبھی رفیق ہوا کرتے تھے جن کی نجی اور سیاسی زندگی میں بھی بہت سی قدریں مشترک رہیں۔اِن دونوں کو ہی متنازع مقدمات میں سزا اور قید ہوئی اور یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ دونوں کو دو مختلف الیکشن سے چند ہی دن قبل سزا سنائی گئی اور کم از کم ایک مقدمے میں تو سزا سنانے والا جج بھی ایک ہی تھا! ان تمام مشترکہ قدروں کے باوجود نواز شریف اور عمران خان کی سیاسی رقابت اب ایک ایسی خلیج کی شکل اختیار کر چکی ہے جو گزشتہ 10 سال سے ملکی سیاست پر حاوی رہی ہے۔عمران خان نے اپنی خودنوشت ’پاکستان: اے پرسنل ہسٹری‘ میں لکھا ہے کہ ’جب میری نواز شریف سے 1970 کے آواخر میں ایک مقامی کرکٹ کلب میں پہلی بار ملاقات ہوئی، تو وہ ایک عام سا شخص لگا جو سیاست سے زیادہ کرکٹ میں دلچسپی رکھتا تھا۔ میرے خیال میں اس وقت اس کا اصلی خواب یہ تھا کہ وہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا کپتان بن جائے۔ اسے کھیل کا گلیمر بہت اچھا لگتا تھا۔‘پی جے میر کہتے ہیں کہ ’عمران خان اس وقت نواز شریف کو بہت باؤنسرز کرواتے تھے۔ عمران 16 قدموں کا رن اپ لے کر گیندیں مارتے تھے نواز شریف کی چھاتی پر لیکن وہ کھا لیتے تھے۔ ہم عمران کو کہتے تھے کہ یار انسان کا بچہ بن، کیا کر رہا ہے۔اوپننگ کے اس شوق کی وجہ سے 1987 میں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا جب ورلڈ کپ سے قبل ویسٹ انڈیز کی ٹیم ایک وارم اپ میچ کھیل رہی تھی۔ عمران خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’میچ شروع ہونے سے چند لمحے قبل کرکٹ بورڈ کے سیکریٹری شاہد رفیع نے مجھے آگاہ کیا کہ اس دن وزیراعلیٰ نواز شریف ٹیم کے کپتان ہوں گے۔عمران خان لکھتے ہیں کہ ’اس بات کا خطرہ موجود تھا کہ کوئی سنجیدہ معاملہ ہو سکتا ہے۔نواز شریف 1988 میں ایک بار پھر وزیراعلیٰ بننے میں کامیاب ہو گئے اور 1990 میں پہلی بار پاکستان کے وزیراعظم بنے، یہ اتفاق ہے کہ عمران خان کے کرکٹ کریئر کی سب سے بڑی کامیابی بھی اسی دور میں حاصل ہوئی یعنی کرکٹ ورلڈ کپ کی جیت۔ ایک صحافی کے مطابق عمران خان کی اس جیت میں ایک ہاتھ نواز شریف کا بھی تھا۔صحافی سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ ’اس زمانے میں نواز شریف کے بیٹے بھی عمران خان کے فین ہوا کرتے تھے اور انھوں نے بھی ہسپتال کے لیے کافی عطیات دیے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پی جے میر نے دعویٰ کیا کہ 1997 کا الیکشن عمران خان اور تحریک انصاف کا پہلا انتخابی تجربہ تھا جس میں وہ بُری طرح ناکام ہوئے، عمران خان اور نواز شریف اس اتحاد کا حصہ بنے جسے ’آل پارٹیز ڈیموکریٹک مومنٹ‘ یا ’اے پی ڈی ایم‘ کا نام دیا گیا لیکن یہ اتحاد بھی زیادہ دیر قائم نہ رہا۔ 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی وجہ سے عمران خان اس اسمبلی سے دور رہے، پی جے میر بھی اس نکتے سے اتفاق کرتے ہیں۔ ’عمران خان نے سیاست کے آغاز میں آصف زرداری پر ہی زیادہ تنقید کی۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ عمران خان کے دل میں یہ احساس موجود تھا کہ جس زمین پر اس نے ہسپتال بنایا، وہ زمین نواز شریف نے دلوائی۔1990 کی دہائی میں نواز شریف اور بینظیر کی سیاسی مخالفت کے باوجود 2007 میں ان کے درمیان ’چارٹر آف ڈیموکریسی‘ طے پایا۔ تو کیا ماضی کے فریق، نواز شریف اور عمران خان تمام تر اختلافات کے باوجود مستقبل میں ایک بار پھر سے اتحادی بن سکتے ہیں؟ پی جے میر کا کہنا ہے کہ ’دونوں نے ہی اقتدار کے حصول کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی جانب دیکھا۔ اور اب دونوں کی لڑائی صرف اتنی ہے کہ اقتدار میں کس کو کتنا حصہ ملتا ہے تاہم ان کے مطابق ’میرا خیال ہے کہ ان میں صلح ہو گی، کسی نہ کسی طریقے سے۔ اور اس بار وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اکھٹے ہوں گے۔ عمران ان لوگوں میں سے نہیں ہے جو فوج کو اپنے سے بالاتر رہنے دے۔ نواز شریف کی بھی یہی سوچ ہے۔

Back to top button