چودھری نثار 3 برس بعد تھوک کر چاٹنے کو کیوں تیار؟


میاں نواز شریف کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے سے اختلاف کے باعث سیاست میں قصہ پارینہ بن جانے والے چوہدری نثار علی خان نے تھوک کر چاٹنے کا فیصلہ کیا یے اور تین سال پہلے پنجاب اسمبلی کی نشست کا حلف نہ اٹھانے کے اعلان کی نفی کرتے ہوئے اب رکن نہ صرف ممبر صوبائی اسمبلی بننے کا فیصلہ کیا ہے بلکہ ایک ٹویٹ میں نواز شریف کو دوبارہ سے اپنا لیڈر تسلیم کرلیا ہے۔
یاد رہے کہ 2018 کے الیکشن سے پہلے چوہدری نثار علی خان نے نواز شریف اور مریم نواز کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد وہ قومی اسمبلی کے دونوں حلقوں سے بڑی طرح ہار گئے لیکن صوبائی اسمبلی کی ایک نشست جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔ تاہم بعد ازاں انہوں نے صوبائی اسمبلی کا رکن بننا پسند نہیں کیا اور یہ اعلان کیا کہ وہ حلف نہیں لیں گے۔ پچھلے برس بھی جب چوہدری نثار سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا وہ پنجاب اسمبلی کا حلف اٹھائیں گے تو ان کا کہنا تھا کہ وہ تھوک کر چاٹنے کے قائل نہیں ہیں۔ لیکن اب 3 برس بعد انہوں نے اچانک اپنا تھوکا ہوا چاٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا یے کہ وہ اسلیے صوبائی اسمبلی کا حلف اٹھانے جا رہے ہیں کہ ایک تو انکا بیٹا ان کی سیٹ کے خالی ہونے پر ضمنی الیکشن لڑنے کو تیار نہیں تھا اور دوسرا حلف کے متعلق ممکنہ قانون سازی کے بعد انہیں اپنا سیاسی کیر یئر ختم ہوتا نظر آرہا تھا۔
اگرچہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے سابق معتمدِ خاص چوہدری نثار علی خان کے بارے میں ایسی خبریں پہلے بھی آتی رہی ہیں لیکن نثار نے حلف نہیں اٹھایا۔ جولائی 2018 کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی سیٹ جیتی جانے کے باوجود وہ حلف اٹھانے کے لیے گزشتہ تین سال سے اسمبلی میں نہیں آئے۔ الیکشن 2018 کے بعد چودھری نثار علی خان نے کہا تھا کہ میں مسلم لیگ کا بانی کارکن ہوں جسے نواز شریف نے سائیڈ لائن دیا۔ پھر 2020 میں انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کا حلف اٹھانا تھوک کر چاٹنے کے مترادف ہو گا۔ کچھ عرصہ پہلے جب حکومت نے بطور رکن اسمبلی حلف نہ اٹھانے والوں کی نااہلی کے لیے قانون سازی شروع کی تو نثار کے ترجمان نے کہا تھا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ انکی سیٹ خالی ہونے پر یہاں سے ان کے امریکہ پلٹ بیٹے چوہدری تیمور علی خان ضمنی الیکشن لڑیں۔ تاہم اب اطلاع ہے کہ انکے بیٹے نے الیکشن لڑنے سے انکار کر دیا ہے جس کے بعد اپنی سیاست بچانے کے لئے نثار پی پی 10 راولپنڈی کی نشست پر اپنے عہدے کا حلف رواں اسمبکی سیشن میں اٹھا لیں گے۔
ایسے میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ کیا چوہدری نثار کے ممکنہ حلف اٹھانے کا تعلق پنجاب میں ہونے والی نئی سیاسی تبدیلیوں سے ہے، خصوصا جب ترین گروپ بھی کھل کر سامنے آ چکا ہے؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ شاید نثار کے تھوک چاٹنے کے فیصلے کی پیچھے انکے اسٹیبلشمینٹ نواز دیرینہ دوست شہباز ہیں جو ایک مرتبہ پھر متحرک سیاست شروع کر چکے ہیں؟ تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ پچھلے تین برسوں میں پاکستانی سیاست کے پلوں تکے ڈھیروں پانی بہہ چکا ہے اور اب نثارعلی خان ملکی سیاست میں قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ واضح رہے کہ جولائی 2018 میں عثمان بزدار کے وزیراعلیٰ منتخب ہونے سے قبل یہ چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں کہ عمران خان کے کالج فیلو ہونے کی وجہ سے چوہدری نثار علی خان اب تحریک انصاف جوائن کرکے وزیراعلیٰ پنجاب بن جائیں گے۔ لیکن چوہدری نثار نے تو حلف ہی نہیں اٹھایا جس کے بعد قرعہ فال بزدار کے نام نکلا۔ اس وقت پنجاب میں بزدار سرکار کو ترین گروپ کا چیلنج درپش ہے تو ایسی افواہیں اڑائی جا رہی ہیں کہ چوہدری نثار حلف اٹھا کر شاید بزادر کی جگہ لے لیں گے، تاہم ترین گروپ اور ن لیگ کے اندرونی ذارائع ان خبروں کو بے بنیاد اور ناقابل عمل قرار دیتے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا بھی یہی کہنا ہے کہ اب چودھری نثار علی خان کی سیاسی حیثیت ایک بلبلے کی ہے جنہیں غبارہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
مسلم لیگ ن کے کٹر حامی صحافی سلمان غنی کے مطابق چودھری نثار علی خان کے حلف اٹھانے کے پیچھے کوئی سازش کار فرما نہیں، وہ ایک تکنیکی صورت حال کے پیش نظر حلف اٹھائیں گے۔ انکاکہنا تھا کہ میری کچھ عرصہ قبل نثار سے بات ہوئی تھی، تب بھی یہ خبر گرم تھی تھی کہ وہ 18 مئی کو حلف اٹھائیں گے، لیکن انہوں نے ذاتی طور پر اس خبر کی تردید کی تھی، لیکن اب ایسی خبریں ضرور آرہی ہیں کہ ان کے حلقے کے قریبی دوستوں نے انہیں اس تھوک چاٹنے پر راضی کر لیا ہے۔ سلمان غنی نے بتایا کہ حکومت الیکشن ایکٹ میں ایک آرڈیننس کے ذریعے ترمیم لا رہی ہے جس میں یہ شق ہوگی کہ الیکشن جیتنے والا 60 دن کے اندر اندر حلف اٹھانے کا پابند ہو گا۔اس سے پہلے قانون اور اسمبلی رولز اس بارے میں خاموش تھے کہ اگر الیکشن جیتنے والا رکن حلف نہیں اٹھاتا تو اس کی حیثیت کیا ہو گی۔ اس سے پہلے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز نے بیماری کی حالت میں الیکشن جیتا لیکن حلف نہیں اٹھایا۔ اسحاق ڈار نے بھی سینیٹر بننے کے باوجود ابھی تک حلف نہیں اٹھایا۔
یاد رہے کہ چوہدری نثار 1985 سے الیکشن لڑ رہے ہیں اور آٹھ بار مسلسل منتخب ہوئے ہیں۔ سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کا شمار مسلم لیگ ن کی پالیسی ساز رہنماؤں کی صف میں ہوتا تھا لیکن پارٹی سے اختلافات کی وجہ سے انہیں الیکشن میں بھی شدید نقصان اُٹھانا پڑا اور قومی اسمبلی کی کسی نشست سے کامیابی ان کا مقدر نہیں ہوئی۔ سیاسی حلقوں میں چودھری نثار سے متعلق یہ رائے ہے کہ ان کا بیانیہ شہباز شریف کی طرح مفاہمتی اور فوج نواز ہے۔ چودھری نثار کے نواز شریف سے اختلافات بھی ان کے پرو فوج بیانیے کی وجہ سے ہوئے تھے۔ نثار نے الیکشن 2018ء میں 4 نشستوں سےحصہ لیا جس میں دو نشستیں قومی اسمبلی جبکہ دو صوبائی اسمبلی کی تھیں۔چودھری نثار کو قومی اسمبلی کی دو نشستوں این اے 59 اور این اے 63 سے اور صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 12 سے شکست کا سامنا ہوا، جبکہ پنجاب اسمبلی کی نشست پی پی 10 سے نثار 30 ہزار ووٹوں کے فرق سے جیتے۔ انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ انہیں دھاندلی سے ہرایا گیا لہازا انہوں نے بطور احتجاج صوبائی اسمبلی کا حلف نہیں اٹھایا تھا۔ فوجی خاندان سے تعلق رکھنے والے چوہدری نثار میاں نواز شریف کی ’کچن کیبینٹ‘ کے خاص رکن رہے ہیں۔ نواز شریف سے رفاقت اور شہباز شریف سے ان کے گہری دوستی کی وجہ سے گزشتہ تقریبا تین دہائیوں سے مسلم لیگ کی سیاست میں چوہدری نثار کا اہم کردار رہا ہے۔ تاہم 2018 کے الیکشن سے پہلے ن لیگ سے ان کی طویل رفاقت تب ٹوٹ گئی جب انہوں نے اپنی ہی قیادت کے خلاف پانامہ لیکس کے بعد کھل کر بولنا شروع کر دیا اور مریم نواز کو ’بچی‘ قرار دے کر لیڈر ماننے سے انکار کر دیا۔ البتہ سیاسی مبصرین کے مطابق شہباز اپنی صلح جو طبیعت کی وجہ سے چوہدری نثار کے بہت قریب ہیں اور یہ دوستی اب بھی جاری ہے۔ کچھ عرصہ قبل شریف برادارن کی والدہ کی وفات پر چوہدری نثار طویل عرصے کے بعد تعزیت کے لیے رائے ونڈ بھی گئے تھے۔

Back to top button