چونیاں، بچوں سے زیادتی، مجرم سہیل کو 6 بار سزائے موت کا حکم

لاہور کی انسدا دہشت گردی عدالت نے پنجاب کے ضلع قصور کے علاقے چونیاں میں بچوں سے زیادتی کے مجرم سہیل شہزادہ کو مزید دو مقدمات میں 6 بار سزائے موت سنا دی۔
لاہور کی انسداد دہشت گری عدالت کے جج محمد اقبال نے چونیاں میں چار بچوں سے زیادتی اور قتل کے مجرم کے مزید دو مقدمات کا بھی فیصلہ سنایا۔عدالت نے مجرم سہیل شہزادہ کو دو مقدمات میں 6 بار سزاٸے موت، دو بار عمر قید اور جرمانہ بھی عائد کردیا۔
خیال رہے کہ عدالت اس سے قبل دو مقدمات میں سہیل شہزادہ کو سزائے موت کی سزائیں سنا چکی ہے۔مجرم کے خلاف تھانہ سٹی چونیاں میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کا مقدمہ دہشت گردی کی خصوصی دفعات کے تحت درج ہے جبکہ ملزم سہیل شہزادہ نے 342 کے حتمی بیان میں الزامات کو جھوٹا قرار دیا۔ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل عبدالجبار ڈوگر اور میاں طفیل نے حتمی بیان قلم بند کرایا اور سیکیورٹی مسائل کے باعث ملزم کا ٹرائل جیل میں مکمل کیا گیا۔چونیاں میں بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے الزام میں سہیل شہزادہ کے خلاف چار مقدمات درج تھے اور اب چاروں مقدمات کے فیصلے سنائے جاچکے ہیں۔
چونیاں شہر کی پولیس نے مجرم سہیل شہزاد کے خلاف 2019 میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 302، 367-اے، 377 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 7 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔انسداد دہشت گردی عدالت نے 14 جولائی 2020 کو انسداد دہشت گردی عدالت نے 4 بچوں کو ریپ کے بعد قتل کرنے کے ایک مقدمے میں مجرم سہیل شہزاد کو 3 بار سزائے موت سنائی تھی۔اس سے قبل 18 دسمبر 2019 کو بھی ایک بچے کا جنسی استحصال کرنے کے بعد اسے قتل کرنے کا جرم ثابت ہونے پر 3 مرتبہ سزائے موت سنائی گئی تھی۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال جون میں 8 سے 12 سال کی عمر کے 4 بچے لاپتا ہوئے تھے اور 16 ستمبر کی رات کو 8 سالہ فیضان لاپتا ہوا تھا۔ان میں سے 3 بچوں کی لاشیں 17 ستمبر 2019 کو چونیاں بائی پاس کے قریب مٹی کے ٹیلوں میں سے ملی تھیں۔
بعد ازاں یکم اکتوبر کو وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے چونیاں واقعے کے ملزم سہیل شہزاد کی گرفتاری کا اعلان کرتے ہوئے ایک تفصیلی پریس کانفرنس بھی کی تھی اور بتایا تھا کہ ملزم کی شناخت کے لیے کن طریقوں کو استعمال کیا گیا۔وزیراعلیٰ نے تصدیق کی تھی کہ یہ ملزم ریپ کے بعد قتل ہونے والے بچوں کے ان چاروں کیسز میں ملوث تھا جبکہ ساتھ ہی ملزم کے خلاف انسداد دہشت گردی عدالت میں مقدمہ چلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر اس کی سماعت ہوگی۔ملزم سہیل شہزاد نے دوران تفتیش اعتراف جرم کر لیا تھا جس کے بعد 6 نومبر 2019 کو اس کا بیان جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کیا گیا تھا۔
پولیس نے سرکاری وکیل عبدالرؤف وٹو کے ذریعے لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت میں درخواست دائر کی تھی کہ ملزم کا 164 کا بیان ریکارڈ کرانا ہے لہٰذا ملزم کو چونیاں میں جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔بعدازاں انسداد دہشت گری عدالت نے ملزم سہیل شہزاد کو چونیاں لے جاکر بیان ریکارڈ کروانے کی اجازت دی، جس کے بعد ملزم کو چونیاں کے جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو پیش کیا گیا جہاں ملزم کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔بعد ازاں 2 دسمبر 2019 کو ملزم سہیل شہزاد کے خلاف سماعت لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں شروع ہوئی اور 9 دسمبر کو فرد جرم عائد کی گئی تھی۔
واضح رہے کہ رواں سال جون میں 8 سے 12 سال کی عمر کے 4 بچے لاپتا ہو گئے تھے جبکہ 16 ستمبر کی رات کو 8 سالہ فیضان لاپتا ہوا تھا۔ ان میں سے 3 بچوں کی لاشیں 17 ستمبر کو چونیاں بائی پاس کے قریب مٹی کے ٹیلوں سے ملی تھیں۔بعد ازاں 6 نومبر کو گرفتار ملزم سہیل شہزاد نے دوران تفتیش اعتراف جرم کر لیا تھا جس کے بعد ان کا بیان جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کیا گیا۔انسداد دہشتگردی عدالت کے جج محمد اقبال نے 2 صفحات پر مشتمل مختصر تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے لکھا تھا کہ سہیل شہزادہ پر لگے الزامات ثابت ہوئے ہیں، اسے اس وقت تک پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جائے جب تک موت واقع نہیں ہوتی۔تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ سہیل شہزاد کو دفعہ 367 اے کے تحت ایک مرتبہ سزائے موت اور 10 لاکھ جرمانے، قتل کی دفعات کے تحت سزائے موت، 2 لاکھ جرمانے، انسداد دہشت گردی کی دفعہ 7 اے ٹی اے کے تحت سزائے موت اور 10 لاکھ جرمانے اور سیکشن 377 کے تحت عمر قید اور 10 لاکھ کا جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button