کیا فائز عیسی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس بننے والے ہیں؟
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عباس ناصر نے کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی ریٹائرمنٹ کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد بھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ حکومت اپنی مجوزہ آئینی ترامیم سے پیچھے ہٹنے والی نہیں اور اکتوبر کے خاتمے سے پہلے ان ترامیم کو منظور کروانے کے لیے پرعزم دکھائی دیتی ہے۔ ان کے مطابق اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ قاضی فائز عیسی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس بنا دیے جائیں۔
آئینی ماہرین کے مطا ق ایسا ہونا دو صورتوں میں ممکن ہے، پہلی صورت یہ ہے کہ حکومت آئینی ترمیم کے ذریعے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں تین سال کا اضافہ کر دے، دوسری صورت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے کسی ریٹائرڈ جج یا چیف جسٹس کو آئینی عدالت کا سربراہ بنانے کی ترمیم پاس کروا لی جائے۔ دونوں صورتوں میں قاضی فائز عیسی کا کام ہو جائے گا۔
انگریزی روزنامہ ڈان کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عباس ناصر کہتے ہیں کہ پاکستان میں چیزیں اتنی سادہ اور آسان نہیں ہوتیں جیسی کہ لگتی ہیں۔ اسی لیے حکومت اور اس کے طاقتور فوجی سرپرستوں نے اب تک آئینی ترامیم لانے کا ارادہ ترک نہیں کیا حالانکہ گزشتہ ماہ حکومت کو دو تہائی اکثریت نہ ملنے پر تضحیک کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کے لیے آئینی ترمیم منظور کروانے کی ’ڈو اور ڈائی‘ کی ڈیڈلائن 25 اکتوبر تک ہے کہ جو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا بطور چیف جسٹس آخری دن ہوگا۔
اس کے اگلے دن یعنی 26 اکتوبر کو جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھانا ہے۔ آئینی ترمیم کو منظور کروانے کی تمام تر جلد بازی اسی لیے ہے کہ جب منصور علی شاہ چیف جسٹس کی کرسی پر بیٹھیں تو موجودہ ہائبرڈ نظام کو کچلنے کے لیے ان کے پاس کوئی طاقت یا اختیارات نہ ہوں۔
عباس ناصر کہتے ہیں کہ حکومت بلاوجہ منصور شاہ سے پریشان ہے۔ جسٹس منصور ایک باعزت جج ہیں جو اپنے عمل سے واضح کر چکے ہیں کہ وہ آئین اور قانون کے دائرہ کار میں رہ کر مقدمات کے فیصلے کر سکتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا اندازہ ہے کہ منصور علی شاہ دیگر ججز کو ’قابو‘ نہیں کر پائیں گے، اس کے برعکس میری جن وکلا سے گفتگو ہوئی انہوں نے منصور علی شاہ کے ٹریک ریکارڈ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ پختہ یقین رکھتے ہیں کہ جسٹس شاہ ایسے شخص نہیں جو کسی کے کہنے میں آ کر آئین کے متصادم فیصلہ کریں یا قانون کے راستے سے ہٹ جائیں۔ ان کے مطابق معزز جج کے حوالے سے جو بھی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں وہ سچائی سے بہت دور ہیں۔
تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ نے پچھلے چند ماہ کے دوران جس طرح کے فیصلے دیے ہیں اور جس طرح کی بچگانہ حرکات کی ہیں ان سے صاف ظاہر ہے کہ وہ تحریک انصاف کا سیاسی ایجنڈا آگے بڑھا کر چیف جسٹس آف پاکستان کی کرسی تک پہنچنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
دوسری جانب عباس ناصر کے مطابق عجیب بات یہ ہے کہ سیاسی تقسیم کے درمیان کچھ ٹی وی یا یوٹیوب شخصیات نے بھی اپنے تبصروں میں جسٹس منصور شاہ کو منفی طور پر پیش کیا ہے۔
کچھ تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ جسٹس منصور علی شاہ کے چیف جسٹس بننے کے بعد فروری 2024 کے الیکشن کو یکسر کالعدم قرار دے دیا جائے گا جب کہ کچھ نے خبردار کیا ہے کہ الیکشن ٹربیونلز کی تیز ترین کارروائیوں کے تناظر میں متعدد چیلنجز اور معاملات میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑے گا۔
لیکن مجھے ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ ویسے بھی میرا تو یہ تجربہ ہے کہ عدلیہ کی جانب سے دیے جانے والے کسی بھی حکومت مخالف فیصلے پر تب تک عمل درآمد نہیں ہوتا جب تک فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اسے توثیق نہ ملے۔
قاضی پر ایکسٹینشن لینے کا الزام لگانے والے یوتھیے شرمندہ کیسے ہوئے؟
عباس ناصر کہتے ہیں کہ اگر کسی غیرمعمولی صورت حال میں ایسے کسی حکومت مخالف فیصلے کی توثیق ہو بھی جاتی ہے تب بھی یہ واضح نہیں کہ اس پر عمل درآمد کیسے ہوگا۔ آئینی ترمیم جیسے کسی بھی قدم سے حکمرانوں کی قانونی ساکھ خطرے میں پڑ جائے گی اور ملک ایک نئے بحران کا شکار ہو جائے گا۔
لیکن ابھی یہ دیکھنا ہوگا کہ حکومت کے اس غیر معمولی قدم کے بعد کیا صورت حال پیدا ہوگی اور اس کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔
یہ بھی سچ ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے مسلسل احتجاج اور مظاہروں کے باوجود بھی گزشتہ چند ماہ میں معیشت میں بہتری آئی ہے۔ مہنگائی کے اشاریوں میں کمی واقع ہوئی ہے جسے ایک مثبت نظر سے دیکھا جارہا ہے حالانکہ عوام کو بجلے کے بلز کی مد میں اب بھی بڑا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت میں بیٹھے سیاست دان اور ان کے وردی پوش حمایتی نہیں چاہتے کہ پاکستانی معیشت کو کسی طرح کا نقصان پہنچے۔ ان کا گمان ہے کہ اگر معیشت بہتر ہوگی تو ان کی قسمت یاوری ہوگی۔
عباس ناصر کے مطابق اصل فیصلہ ساز درحقیقت ایسی عدلیہ چاہتے ہیں جو ان کی ہاں میں ہاں ملائے اور انہیں اجازت دے کہ وہ جسے چاہیں قانونی سیاسی حقوق دینے سے انکار کریں اور جسے چاہیں اس کے معاشی حقوق سے محروم کر دیں۔ یعنی عدلیہ ایسی ہو جو یا تو ان کے اقدامات کو نظرانداز کردے یا موجودہ "سٹیٹس کو” کو لاحق کسی بھی قانونی چیلنج کو کمزور کرنے میں حکومت کا ساتھ دے۔
اگر مجوزہ ترمیم کی کچھ شقوں کو تبدیل کر کے حکومت مولانا فضل الرحمٰن کی حمایت حاصل کرنے اور ترمیم منظور کروانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو سپریم کورٹ کے کچھ اہم ترین اختیارات نئی وفاقی آئینی عدالت کو منتقل ہو جائیں گے جو مکمل طور پر حکومت کے ماتحت ہوگی۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو کیا معلوم ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس فائز عیسی کو ہی آئینی عدالت کا سربراہ تعینات کر دیا جائے۔