چینی بحران پرذمہ داران کیخلاف کارروائی میں تاخیر کیوں؟

صرف کرپشن الزامات پر حزب اختلاف کے رہنماوں کو سالوں پابند سلاسل رکھنے والی تبدیلی سرکار نے چینی اور آٹے کے بحران میں اپنی قائم کردہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ میں جہانگیر ترین، خسرو بختیار اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا نام سامنے آنے کے باجود ذمہ داران کے خلاف فوری کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے25 اپریل تک ذمہ داران کیخلاف کارروائی موخر کر دی ہے۔ چینی بحران کی تحقیقاتی رپورٹ میں وزیر اعظم کے قریبی ساتھیوں کے نام آنے اور کپتان کی طرف سے فوری کارروائی سے گریز کے بعد سوشل میڈیا صارفیں تبدیلی سرکار کو خوب آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔
یاد رہے کہ ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی ٹیم کی طرف سے تیار کی گئی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ سامنے آیا تھا کہ ماضی قریب میں پیدا ہونے والے چینی اور آٹے کے بحران سے تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین اور وفاقی وزیر خسرو بختیار کے قریبی رشتہ دار مستفید ہوئے۔رپورٹ کے مطابق آٹا بحران بھی باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت پیدا کیا گیا، جس میں سرکاری افسران اور اہم سیاسی شخصیات ملوث ہیں۔بعد ازاں وزیر اعظم نے ذمہ داران کے خلاف فوری کارروائی سے احتراز کرتے ہوئے بیان دیا کہ اس رپورٹ کے نتائج سامنے آنے کے بعد کوئی بھی طاقتور گروہ عوامی مفادات کا خون کر کے منافع سمیٹنے کے قابل نہیں رہے گا۔ تاہم یہ ذمہداران کو کٹہرے میں کب لایا جائے گا یہ وضاحت نہیں کی۔‘
دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں اور سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے ایف آئی اے کی چینی اور آٹے کے بحران پر تیار کی گئی رپورٹ زیر بحژ ہے اور پاکستان میں ٹرینڈ کر رہے ہے۔ سوشل میڈیا پر وزیر اعظم عمران خان نے چینی اور آٹے کے بحران میں ملوث افراد کیخلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے ایف آئی اے کی رپورٹ پر اپنا ردِعمل دیتے ہوئے اس رپورٹ کو ’ایک سنگین انکشاف‘ اور وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلی عثمان بزدار کے خلاف ’فرد جرم‘ قرار دیا ہے۔انھوں نے کہا ہے کہ ’دیکھتے ہیں کہ وزیراعظم جو اقتصادی رابطہ کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں اپنے اور اپنے وزیر اعلی کے خلاف اس بڑے پیمانے پر ہونے والی کرپشن اور اقربا پروری پر کیا سزا مقرر کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جہاں یہ بحث ہو رہی ہے کہ کیا یہ تمام شخصیات اپنے عہدوں سے ہٹائے جائیں گے وہیں خود عمران خان اور حکومت کے خلاف کارروائی کرنے کے حوالے سے بھی بات کی جا رہی ہے۔ کچھ صارفین نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ کیا نیب ان سب کے خلاف بھی ویسے ہی کارروائی کرے گا جیسے حزب مخالف کے رہنماؤں کے خلاف کی جاتی ہے۔
صحافی منصور علی خان نے لکھا کہ عمران خان اس بات پر تو داد کے مستحق ہیں کہ وہ انکوائری رپورٹ منظر عام پر لے آئے لیکن کیا وہ قصور واروں کو نشانِ عبرت بنائیں گے، بس اسی کا انتظار ہے۔
اس حوالے سے اپنا تجزیہ دیتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ عمران خان کے دور میں بھی واجد ضیا ہی حکومت کی کرپشن کی کہانی سامنے لائے ہیں جو شریف خاندان کے بارے میں جے آئی ٹی رپورٹ لے کر آئے تھے۔ اس حوالے سے کریڈٹ ان کا ہے، حکومت کا نہیں۔
صحافی محمد ضیا الدین نے کہا کہ عمران خان ایک طرف تو اپنی حکومت سے قبل کرپشن کرنے والے سیاست دانوں کو سزائیں دینا چاہتے ہیں تو دوسری جانب وہ کووڈ 19 کے عفریت سے مقابلہ کرنے کے لیے اپنی حکومت آنے کے بعد کرپشن کرنے والوں کو منظر عام پر لے آئے ہیں لیکن وہ اس کرپشن مافیا کو سہولت دینے کے لیے پیدا کیے جانے والے ماحول کے بارے میں کسی سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے۔‘
صحافی اجمل جامی نے لکھا کہ عمران خان کو داد تو دینی چاہیے لیکن سوال یہ ضرور اٹھے گا کہ جب چینی کے ساتھ گیم کھیلی گئی تو سرکار کہاں تھی۔
واضح رہے کہ تحقیقاتی کمیشن کی فہرست میں جہانگیر ترین کی جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز اور’جے کے کالونی کا ذکر کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ سال 2018-19 کے دوران سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کی شوگر ملزکو پہنچایا گیا ہے۔ جے ڈی ڈبلیو نے کل چینی کی پیداوار 640،278 ٹن کی جس میں سے 121،621 برآمد کی گئی جو کل برآمدات کا15.53 فیصد بنتا ہے۔ جہانگیر ترین کو حکومت کی طرف سے 56 کروڑ سے زائد سبسڈی ملی جو کل دی گئی سبسڈی کا 22.52 فیصد بنتا ہے۔جہانگیر ترین کی ہی جے کے کالونی نے 70،815 ٹن چینی کی پیداوار کی اور 1،000 ٹن برآمد کر لی اور پھر اس پر مزید سبسڈی بھی حاصل کی۔وفاقی وزیر خسرو بختیار کے قریبی رشتہ دار کے ‘آر وائی کے گروپ’ نے 31.17 فیصد چینی برآمد کی اور 18.31 فیصد سبسڈی حاصل کی جو 45 کروڑ سے زائد بنتی ہے۔دیگر کمپنیوں میں ‘الموئیز انڈسٹریز’ اور ‘تھل انڈسٹری کارپوریشن’ ہیں جنھیں کل سبسڈی کا 16.46 فیصد دیا گیا۔انکوائری رپورٹ میں پنجاب حکومت سے متعلق بتایا گیا کہ صوبائی حکومت نے دباؤ میں آ کر شوگر ملز کو سبسڈی دی اور اقتصادی رابطہ کمیٹی ای سی سی نے برآمدات کی اجازت دی۔ تاہم اس انکوائری میں یہ کہیں ذکر نہیں ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی حکومت نے کس کے دباؤ میں آ کر شوگر ملز کو سبسڈی اور برآمدات کی اجازت بھی دی۔رپورٹ کے مطابق ان شوگر ملز کو سبسڈی ایک ایسے وقت پر دی گئی جب مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔رپورٹ کے مطابق شوگر ملز نے باقاعدہ منصوبے کے تحت ملز بند کرنے کا اعلان کیا اور بعد میں سستے داموں گنا خریدا مگر زیادہ منافع کی دوڑ میں اس کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچایا جا سکا۔
یاد رہے کہ چینی بحران سے مستفید ہونے والوں کے نام تو رپورٹ میں موجود ہیں تاہم ان کو فائدہ پہنچانے میں کون کون سی شخصیات ملوث ہیں اس بارے تحقیقاتی رپورٹ میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی اب دیکھنا یہ ہے کہ 25 اپریل کو اس رپورٹ کے حوالے سے اعلیٰ سطحی کمیشن کی جانب سے مفصل فرانزک آڈٹ کے نتائج سامنے آنے کے بعد کیا کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے