ڈپٹی سپیکر کے خلاف آئین سے بغاوت کی کارروائی کا امکان


سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے تین اپریل کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیے جانے کے بعد اس بات قوی امکان پیدا ہو گیا ہے کہ اگلی حکومت آئین کی خلاف ورزی پر ڈپٹی سپیکر کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کرے گی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’عدم اعتماد کی تحریک پر سپیکر کی رولنگ میں بتائی گئی وجوہات آئین اور قانون سے متضاد ہیں جن کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اس لیے ان کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔‘ سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 3 اپریل کے بعد وزیراعظم اور صدر کے تمام فیصلے بھی ختم کر دیے ہیں۔
اس فیصلے کے بعد ڈپٹی سپیکر کے خلاف قانونی طور پر کیا کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے، اس حوالے سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون کا کہنا ہے کہ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی نے وزیراعظم کے ایماء پر نہ صرف تحریک عدم اعتماد مسترد کر کے آئین شکنی کی بلکہ اپوزیشن قیادت پر غیر ملکی سازش میں شریک ہونے کا الزام بھی عائد کر دیا، لیکن بعد ازاں اس بارے عدالت کو کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا جا سکا۔ انکا کہنا تھا کہ اس کیس میں آئین شکنی اور بد نیتی دونوں ثابت ہو چکے ہیں لہذا اگلی حکومت تشکیل پانے کے بعد ڈپٹی سپیکر کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کاروائی کا واضح امکان موجود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ غداری کے الزام پر کارروائی پارلیمنٹ کرتی ہے جیسا کہ مشرف کے خلاف بھی کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ قاسم سوری کے علاوہ وزیراعظم عمران خان اور صدر عارف علوی کے خلاف بھی آئین شکنی کی کارروائی شروع کی جا سکتی ہے۔ ایسی کارروائی کے لیے پارلیمنٹ ایک خصوصی عدالت تشکیل دیتی ہے جو کیس کی سماعت کرتی ہے، انہوں نے یاد دلایا کہ مشرف کے خلاف بھی غداری کیس میں ایسا ہی کیا گیا تھا۔
دوسری جانب سینیئر قانون دان اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدر حامد خان کہتے ہیں کہ ’سپریم کورٹ نے ابھی صرف ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیا ہے، جب کیس کا تفصیلی فیصلہ آئے گا تو دیکھنا ہوگا کہ انکے خلاف کیا کارروائی ہوسکتی ہے۔ ان کے بقول ’تفصیلی فیصلے میں ڈپٹی سپیکر کے اقدام کو اگر آئین کی خلاف ورزی کی حد تک رکھا جاتا ہے اور بغاوت نہیں قرار دیا تو اس صورت میں آرٹیکل 6 کا اطلاق نہیں ہوگا۔‘ حامد خان کے مطابق ’آئین کی خلاف ورزی کرنے پر آرٹیکل 6 کا اطلاق نہیں ہو سکتا، کئی لوگوں سے غلطی ہو جاتی ہے غیر قانونی کام ہوجاتے ہیں، آرٹیکل 6 اس صورت میں لگتا ہے جب آئین کو معطل یا منسوخ کیا جائے۔ لیکن چونکہ دہٹی سپیکر کے فیصلے میں اپوزیشن پر غداری کا الزام لگایا تھا اور اس کے نتیجے میں قومی اسمبلی ٹوٹ گئی تھی اس لیے سپریم کورٹ کی جانب سے کوئی سخت فیصلہ بھی آ سکتا ہے۔
اس معاملے پر سینیئر قانون دان شاہ خاور نےبتایا کہ سپیکر یا دیگر افراد کے خلاف قانونی کارروائی کیا ہوسکتی ہے یہ معاملہ بحث طلب ہے۔’کئی لوگوں کا خیال ہے کہ اس پر آرٹیکل 6 لگتا ہے کیونکہ وہ آئین توڑنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ لیکن آرٹیکل 6 لگانے کا ایک طریقہ کار ہے وہ ہر کوئی کر نہیں سکتا، ریاست پاکستان یہ مقدمہ چلا سکتی ہے۔‘ انہوں نے بتایا کہ سر دست ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جاسکتی ہے اور یہ آپشن ہر وقت اپوزیشن کے پاس موجود ہے۔ شاہ خاور کے مطابق ’جس نے آئین شکنی کی ہے یا آئین توڑا یا اسے معطل کیا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کا فیصلہ وفاقی حکومت فیصلہ کرتی ہے۔ قانونی طور پر اس معاملے پر آرٹیکل 6 لگ سکتا ہے یا نہیں، آئین سے انحراف کرنا یا اس کی خلاف ورزی کرنے پر آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے یا نہیں یہ تھوڑا سا بحث طلب معاملہ ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے یہ ثابت کر دیا کہ کوئی آئین سے انحراف کرے گا تو اس کو استثنٰی کے باوجود اس کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔

Back to top button