ڈھیلی ڈھالی شلوار قمیض اور پگڑیوں والے طالبان کون ہیں؟

امریکہ کے خلاف بیس برس طویل جنگ میں حیران کن کامیابی حاصل کرنے والے افغان طالبان اب سروں پر پگڑیاں باندھے اور ڈھیلی ڈھالی شلوار قمیضیں پہنے کابل کے صدارتی محل پر قابض ہونے کے بعد دوبارہ سے سے طالبان امارات اسلامی بحال کرنے کی طرف گامزن ہیں۔ ستمبر 2001 میں جب نیویارک اور واشنگٹن میں القاعدہ نے ہائی جیک طیاروں کے ذریعے دہشت گردی کی انوکھی کارروائیاں کیں تو ان کے ردعمل میں امریکہ اور اس کی اتحادی افواج نے افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا۔ تب عمومی رائے یہی تھی کہ اب طالبان کا خاتمہ ہوجائے گا اور وہ کبھی دوبارہ اقتدار میں واپس نہیں آ پائیں گے۔ تاہم بظاہر سادہ نظر آنے والے طالبان نے بین الاقوامی دنیا کے تمام اندازے غلط ثابت کرتے ہوئے دوبارہ اقتدار پر قبضہ کر لیا ہے۔ ایسے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر یہ طالبان ہیں کون اور چاہتے کیا ہیں؟
دراصل طالبان‘ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’طالبعلم‘ کے ہیں اور یہ سنہ 1990 کی دہائی میں سوویت افواج کے انخلا کے بعد پاکستان کے شمالی اضلاع میں طاقتور ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ زیادہ تر پشتون قومیت کے افراد پر مبنی اس تحریک نے مذہبی مدارس میں سر اٹھایا جنھیں سعودی عرب کی جانب سے امداد دی جاتی تھی اور جہاں سخت گیر سُنی اسلام پر مبنی نصاب پڑھایا جاتا تھا۔ طالبان کی جانب سے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں جس بیانیے کا پرچار کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد ان علاقوں میں امن کی بحالی اور سکیورٹی یقینی بنائی جائے گی اوراسلامی قانون یعنی ’شریعہ‘ کا نفاذ یقینی بنایا جائے گا۔ جنوب مغربی افغانستان سے طالبان نے آہستہ آہستہ ملک کے بیشتر علاقوں پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کیا اور ستمبر 1995 میں انھوں نے ایران کی سرحد سے متصل صوبہ ہرات پر باقاعدہ قبضہ کیا اور اس سے ایک برس بعد ہی انھوں نے افغان دارالحکومت کابل پر بھی قبضہ کر لیا اور سوویت یونین کو شکست دینے والے افغان مجاہدین کے بانیوں میں سے ایک برہان الدین ربانی کو اقتدار سے ہٹا دیا۔ 1998 تک طالبان نے افغانستان کے 90 فیصد علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ افغان عوام نے سوویت افواج کے انخلا کے بعد ’مجاہدین‘ کے اقدامات اور ان کے جانے کے بعد ملک میں ہونے والی خانہ جنگی کو دیکھتے ہوئے طالبان کو خوش آمدید کہا۔ آغاز میں ان کی شہرت کی بڑی وجہ کرپشن کے خاتمے کے لیے اقدامات، لاقانونیت کا خاتمہ اور علاقے میں سڑکوں کے قیام اور اپنا کنٹرول مضبوط بنانے کے لیے تجارت کو بہتر بنانا شامل تھا۔
تاہم طالبان نے اسلامی سزاؤں کے نفاذ کا آغاز بھی کیا جیسے قتل کے مجرموں یا زنا کرنے والوں کو سرِ عام پھانسیاں اور چوری کرنے والوں کے ہاتھ کاٹنا وغیرہ شامل تھی۔ مردوں کے لیے داڑھیاں رکھنا جبکہ خواتین کے لیے برقعہ پہننا لازمی قرار دیا گیا۔ طالبان نے ٹیلی ویژن، موسیقی اور سینما پر بھی پابندی عائد کر دی اور 10 سال سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کے سکول جانے پر پابندی دی۔ لیکن عالمی دنیا کی توجہ صحیح معنوں میں طالبان پر تب پڑی جب نیویارک میں 9/11 کے حملے ہوئے۔طالبان پر ان حملوں کے سرغنہ اسامہ بن لادن اور ان کی تنظیم القاعدہ کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا گیا۔سات اکتوبر 2001 کو امریکہ کی سربراہی میں اتحادی ممالک کی افواج نے افغانستان پر حملہ کر دیا اور دسمبر کے پہلے ہفتے تک طالبان کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا۔ اس وقت چند اہم اشخاص کی تلاش میں دنیا کی سب سے بڑی مہمات چلائی گئیں لیکن اسامہ بن لادن، طالبان کے رہنما ملا محمد عمر اور دیگر سینیئر رہنما بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔اکثر سینیئر طالبان کمانڈروں نے پاکستان کے شہر کوئٹہ میں پناہ لی اور وہاں سے انھوں نے طالبان کو ہدایات دینا شروع کیں۔ تاہم پاکستان کی جانب سے ’کوئٹہ شوریٰ‘ کی موجودگی پر لاعلمی کا اظہار کیا جاتا رہا۔
افغانستان میں غیرملکی افواج کی تعداد میں اضافے کے باوجود طالبان نے آہستہ آہستہ اپنا کنٹرول واپس لیا اور پھر اس میں اضافے کرتے چلے گئے۔ یوں ملک کے بیشتر علاقے غیر محفوظ ہو گئے اور ملک میں تشدد 2001 کی سطح تک جا پہنچا۔ 2013 میں مذاکرات کے ذریعے امن کے قیام کی امیدیں کچھ دیر کے لیے تب بحال ہوئی تھیں جب طالبان نے قطر میں اپنا دفتر کھولا تھا۔ تاہم دونوں اطراف موجود عدم اعتماد میں اضافہ ہوتا رہا اور تشدد کا سلسلہ جاری رہا۔ اگست سنہ 2015 میں طالبان نے اس بات کو تسلیم کیا کہ انھوں نے ملا عمر کی موت کو دو سال تک چھپائے رکھا جن کی وفات پاکستان کے ایک ہسپتال میں ہوئی تھی۔ اس سے اگلے مہینے طالبان نے اپنے مختلف دھڑوں کے درمیان لڑائی کا خاتمہ کرتے ہوئے نیا رہنما چنا یعنی ملا عمر کے نائب کی حیثیت سے کام کرنے والے ملا منصور۔ اس دوران طالبان نے سنہ 2001 میں شکست کے بعد سے پہلی مرتبہ ایک سٹریٹیجک اہمیت رکھنے والے شہر قندوز کا کنٹرول سنبھال لیا۔ ملا منصور مئی 2016 میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے اور ان کے متبادل کی حیثیت سے ہیبت اللہ اخونزادہ کو طالبان کا سربراہ مقرر کیا گیا اور وہ آج بھی گروپ کے سربراہ ہیں۔