بالغ بچیوں کے فرار کی وجہ ہمارا ٹوٹتا ہوا فیملی سسٹم

کراچی سے ایک ہفتے میں تین کم عمر بچیوں کے گھر سے فرار اور پسند کی شادی کے واقعات نے پاکستان کے فیملی سسٹم اور بچوں کی تربیت پر سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ ان لڑکیوں میں سے دو کی عمریں 14 برس ہیں اور انہوں نے پب جی گیم کھیلتے ہوئے دوستیاں کرنے کے بعد پسند کی شادیاں کر لی ہیں۔ کم سن بچیوں کے گھر چھوڑ کر مرضی سے شادی کرنے کے بعد یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا والدین کم عمر بچوں کے مسائل سے بے خبر ہیں یا پھر ٹیکنالوجی کے منفی اثرات اور والدین کی غیر ذمہ داری ایسے مسائل کو جنم دے رہی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا تہذیب کی آڑ میں بچوں کی بات نہ سننا اور انہیں ہر بات پر زبان بند رکھنے کا درس دینا اس کی وجہ تو نہیں ہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا کم سن بچے والدین سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ وہ اپنے مسائل ان سے ڈسکس نہیں کر پا رہے اور فرار کی راہ اختیار کر رہے ہیں؟ یا پھر نئی نسل ہی بغاوت پر اتر گئی ہے؟
اس حوالے سے خاتون لکھاری فاطمہ شیخ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عام طور پر گھر کے مرد زیادہ تر آفس اور باہر کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں جبکہ خواتین گھر کے کاموں سے فراغت کے بعد سوشل لائف میں مصروف ہوتی ہیں۔ بظاہر والدین کی نظروں کے سامنے بچے صبح اسکول جا تے ہیں اور گھر واپس آ کر کسی نا کسی کام میں مشغول نظر آتے ہیں۔ لیکن کیا والدین اس بات سے باخبر ہیں کہ بچوں نے تعلیمی اداروں میں سارا دن کیسے گزارا اور گھر میں ان کے مشاغل کی تفصیلات کیا ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ زیادہ تر کیسز میں ایسا نہیں ہوتا۔ اس کی سب سے اہم وجہ کمیونیکیشن گیپ ہے۔ بچوں کے ساتھ وقت نا گزارنا اور ان کی باتوں کو غیر اہم سمجھ کر انہیں خاموش رہنے کا درس دینا کم عمر بچوں کے مسائل کی جڑ ہے۔ عام طور پر والدین بچوں کی انفرادیت کو اگنور کرتے ہیں اور انہیں ڈرا دھمکا کر اور مار پیٹ کے ذریعے ان پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی تگ ودو کرتے رہتے ہیں۔
دوسری طرف بچوں کے ذہنوں میں یہ بات پختہ ہو جاتی ہے کہ والدین ان کی باتوں پر توجہ نہیں دیں گے خواہ وہ کتنی ہی اہمیت اور حساسیت کی حامل کیوں نہ ہو۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے وہ کسی نا کسی راہ فرار کے منتظر ہوتے ہیں۔ بقول فاطمہ شیخ، عام طور پر کم عمری میں ہی والدین بچوں کو موبائل، ٹیبلٹس اور لیپ ٹاپ جیسی جدید ڈیوائسز فراہم کر دیتے ہیں، جن کے غلط استعمال سے بچے خراب ہو جاتے ہیں۔ والدین کی جانب سے کمیونیکیشن گیپ کی وجہ سے اس معاملے پر کوئی بات چیت بھی نہیں ہوتی۔ یہ درست ہے کہ نئی نسل کو ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل ہونی چاہیے کیونکہ جدید تقاضوں کے مطابق اسی کے ذریعے وہ ترقی کے زینے چڑھ سکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا والدین بچوں کو جدید ٹیکنالوجیکل ڈیوائسز فراہم کرنے کے بعد اس بات کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں کہ کم عمر بچے موبائل پر کن ایپس کا استعمال کر رہے ہیں؟ اور اس کے ذریعے ان کے امیچور دماغ پر کس قسم کے اثرات ہو رہے ہیں؟
جدید ٹیکنالوجی نے ڈیوائسز کی مانیٹرنگ نہایت آسان بنا دی ہے اور ایک کلک پر اس کا طریقہ کار والدین کی پہنچ میں ہے۔ اکثر والدین شکایت کرتے ہیں کہ زندگی کی ہر سہولت فراہم کرنے کے باوجود بچے باغی ہو گئے ہیں۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ تشدد، جبر، بلاوجہ کی روک ٹوک اور زبردستی فیصلے مسلط کرنا بچوں کی بغاوت کرنے کی چند وجوہات ہیں۔
یاد رہے کہ اپنے گھروں سے فرار ہونے والی کراچی کی تینوں لڑکیوں نے موبائل فون اور لیپ ٹاپ پر پب جی گیم کھیلتے ہوئے دوستیاں کی تھیں جس کے بعد موبائل کی مدد سے ہی وہ ان لڑکوں تک جا پہنچیں اور شادیاں کر لیں۔ ان افسوسناک واقعات کے بعد والدین کو یہ بات سوچنے کی ضرورت ہے کہ ان کی تربیت میں کس چیز کی کمی رہی کہ چودہ سالہ کی لڑکیوں نے اپنے مسائل والدین سے ڈسکس کرنے کے بجائے گھر چھوڑ کر پسند کی شادی کرنے کو ترجیح دی؟ والدین کو یہ بات بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ کس طرح کمیونیکیشن گیپ ختم کر سکتے ہیں اور بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزار سکتے ہیں؟ وہ کس طرح گھر میں اور گھر سے باہر ان کی مصروفیات سے نا صرف آگاہ رہ سکتے ہیں بلکہ ان کی مکمل نگرانی بھی کر سکتے ہیں؟ کیا اب بھی ان سوالات پر غور کرنا ضروری نہیں ہے؟

Back to top button