کیا سلیکٹڈ اورسلیکٹرز میں دوریوں کی ایک وجہ بشری بی بی ہیں؟

وزیر اعظم عمران خان کی تیسری اہلیہ بشریٰ بی بی عرف پنکی پیرنی نے ایک لمبے وقفے کے بعد منظر عام پر آتے ہوئے کہا ہے کہ جس طرح ہر کامیاب مردکے پیچھے اس کی بیوی کا ہاتھ ہوتا ہے، اسی طرح عمراں خان کی کامیابی بھی میری مرہون منت ہے۔
ایک عرصے بعد خاتون اول کا ایک عوامی مقام پر اپنے شوہر کی کامیابی کا دعوٰی کرنا اور پھر اسکا کریڈٹ لینا شاید اپنی امیج بلڈنگ کی کوشش ہے۔لیکن کچھ لوگ پن کی پیرنی کے متحرک ہونے اور اپنے شوہر کی کامیابی کا کریڈٹ لینے کو اس لئے ہدف تنقید بنا رہے ہیں کہ کپتان دور اقتدار میں عام لوگ مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ ہیں اور اپنے تمام مسائل کی ذمہ دار کپتان حکومت کو قرار دیتے۔ لہذا بشری بی بی کی جانب سے کپتان اور انکی حکومت کو کامیاب قرار دینا انہیں ہضم نہیں ہوا۔
یاد رہے کہ روحانی طاقتوں سے مالامال خاتون اول پنکی پیرنی نے یکم مارچ کو لاہور میں داتا گنج بخش علی ہجویری ؒ کے مزار کے قریب قائم ایک پناہ گاہ کا دورہ کیا جس کے دوران انکے ہمراہ ان کی قریبی دوست فرحت شہزادی المعروف فرح خان بھی تھیں۔ اس دوران ایک صحافی کے سوال پر کہ کہا جاتا ہے کہ عمران خان کی ہر کامیابی کے پیچھے آپ کا ہاتھ ہے، بشریٰ بی بی نے کہا کہ ہر کامیاب آدمی کے پیچھے اس کی بیوی کا ہاتھ ہوتا ہے لہذا کپتان کی کامیابی میں بلاشبہ ان کا ہاتھ ہے۔ واضح رہے کہ بشری بی بی لمبے عرصے کے بعد کسی عوامی مقام پر نظر آئیں اور انہوں نے میڈیا سے گفتگو بھی کی۔ تاہم انہوں نے اس ایک فقرے کے علاوہ میڈیا کے ساتھ مزید کوئی گفتگو نہیں کی۔

کہا جاتا ہے کہ عمران اپنی تیسری شادی سے پہلے بشریٰ بی بی کے مرید تھے اور انہیں ملنے پاکپتن جایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ انہیں بابا فرید گنج شکر کے پاکپتن مزار کا راستہ بھی بشریٰ بی بی نے ہی دکھایا تھا۔ تاہم 2018 کے الیکشن سے پہلے ریحام خان سے طلاق لینے کے بعد عمران خان نے بشریٰ بی بی کو نکاح کا پیغام بھیجا جسے قبول کرتے ہوئے انہوں نے اپنے پہلے شوہر خاورمانیکا سے طلاق لے لی اور پھر عمران کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔
تاہم کہا جاتا ہے کہ عمران خان نے بشری بی بی سے شادی کا فیصلہ بھی ان کے مشورے پر کیا جنہوں نے انہیں روحانی حساب کتاب لگا کر بتایا تھا کہ وزیراعظم بننے کے لئے بشریٰ بی بی کا عمران کے نکاح میں ہوناضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بشریٰ بی بی کے پہلے شوہر خاور فرید مانیکا نے قربانی دیتے ہوئے انہیں فوری طلاق دے دی اور یوں بشریٰ بی بی کی عمران خان سے شادی کے بعد تحریک انصاف اقتدار میں آگئی اور کپتان وزیراعظم بن گئے۔ تاہم پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے سمجھتی ہے کہ عمران خان کو وزیراعظم بنانے کا سارا کریڈٹ صرف اسی کو جاتا ہے اور روحانیات یا بشریٰ بی بی کا اس عظیم سانحے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین بڑھتی ہوئی دوریوں کی ایک بڑی وجہ بشری بی بی بھی ہیں کیونکہ عمران اب اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ پنکی پیرنی کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں۔
2018 کے انتخابات سے قبل جلسوں کے شیڈول اور ٹکٹوں کی تقسیم تک بشری بی بی نے عمران خان کو مشوروں سے نوازا۔ حکومت سازی کے وقت وزرائے اعلٰیٰ،گورنرز اور صدر کے انتخاب میں بھی ان کی رائے کو تسلیم کیا گیا۔ بشریٰ بی بی نے عمران کو عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر کام کی ترغیب دی اور انہی کے مشورے پر کپتان نے ملک کے بڑے شہروں میں درجنوں پناہ گاہیں تعمیر کروائیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بشریٰ بی بی کا کپتان پر کس قدر اثر و رسوخ ہے۔
یاد رہے کہ شادی کے کچھ ہی عرصے بعد بشریٰ بی بی نے اپنے شوہر وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ سعودی عرب کا دورہ بھی کیا تھا جہاں دونوں نے ایک ساتھ عمرہ بھی ادا کیا تاہم کئی غیرملکی دوروں میں بشریٰ بی بی نے عمران خان کے ساتھ جانے کی بجائے اسلام آباد میں ہی وقت گزارنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ پنجاب اور مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد عمران خان ہر ہفتے دو ہفتے بعد لاہور کا چکر لگایا کرتے تھے ، اس دوران بشریٰ بی بی بھی ان کے ساتھ ہوتیں۔ تب بشریٰ بی بی کا معمول رہا کہ وہ سرکاری پناہ گاہوں کے تعمیراتی کام کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ یتیم خانوں دارالامان اور سرکاری و فلاحی سپتالوں کے دورے کرتیں۔ لیکن لاہور کے ایک دورے کے دوران ایسی انہونی ہوئی کہ جس کے بعد بشری بی بی کے لاہور آنے اور سرکاری اور فلاحی اداروں کے دورے کرنے پر غیراعلانیہ پابندی لگادی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ لاہور میں واقع گلاب دیوی اسپتال کے دورے کے دوران بشریٰ بی بی نے انتظامیہ سے بعض معاملات کے حوالے سے باز پرس کی۔ جس پر انتظامیہ نے سخت برا منایا اور مؤقف اختیار کیا کہ گلاب دیوی اسپتال ایک ٹرسٹ کے زیر انتظام چلتا ہے، اس لئے وزیراعظم کی بیوی کو قطعی طور پر یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ہسپتال انتظامیہ سے سوال جواب کریں۔ کہا جاتا ہے کہ بعدازاں اسپتال کی انتظامیہ نے وزیراعظم شکایات سیل کو اس حوالے سے ایک خط بھی لکھا، جس پر وزیراعظم سخت شرمندہ ہوئے اور بشریٰ بی بی کو آئندہ لاہور میں کسی بھی فلاحی مرکز یا دیگر جگہوں کے دورے کرنے سے روک دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد اکثر اوقات کپتان اکیلے ہی لاہور آتے رہے اگر کبھی بشریٰ بی بی ان کے ساتھ لاہور آئیں بھی تو وہ صرف زمان پارک والے گھر تک محدود رہیں اور انھوں نے کسی سرکاری اسپتال یہ فلاحی ادارے کا دورہ نہیں کیا۔
تاہم اب تقریباً دو سال بعد بشریٰ بی بی اسلام آباد سے اکیلے ہی لاہور پہنچیں اور داتا دربارکے قریب واقع پناہ گاہ کا دورہ کیا اور میڈیا سے گفتگو بھی کی۔ اپنے دورے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہاں مسائل کا سن کر آئی تھی لیکن یہاں صورتحال بہتر ہے۔ بشریٰ بی بی نے پناہ گاہ میں سہولتوں کا جائزہ لینے کے دوران وہاں مقیم افراد سے کھانے کے معیار اور رہائشی سہولتوں کے بارے میں دریافت کیا۔انہوں نے کھانا چکھ کر کھانے کا معیار چیک کیا۔ خاتون اول نے پناہ گاہ میں مقیم افراد سے ان کے مسائل بھی پوچھے اور انہیں حل کرنے کی یقین دہانی بھی کروائی۔انہوں نے انتظامیہ کو پناہ گاہ میں سہولتوں کو مزید بہتر بنانے کی ہدایت بھی جاری کی۔ اس موقع پر خاتون اول نے کہا کہ پناہ گاہوں کی عمارتوں کی ضروری مرمت کے لیے فنڈز ترجیحی بنیادوں پر مہیا کریں گے۔ بشریٰ عمران نے کہا کہ ہماری حکومت نے کھلے آسمان تلے سونے والے افراد کو چھت دی ہے اور یہ ان لوگوں پر کوئی احسان نہیں بلکہ ان کا حق ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button