صوبہ سندھ: ایک برس میں انسانی حقوق کی 2093خلاف ورزیاں

سندھ پولیس کی جانب سے میڈیا کو جاری جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق ایک سال میں صوبہ سند ھ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے 2 ہزار 93 کیسز پولیس کو رپورٹ کیے گئے، 7 سو 53 کیسز کی چارج شیٹ تیار کی گئی، 8 سو 63 کی تحقیقات جاری ہیں اور 7 سو 49 عدالت میں زیرِ سماعت ہیں۔
پولیس رپورٹ رپورٹ کے مطابق یہ خلاف ورزیاں 31 جنوری، 2019 سے لے کر 31 جنوری، 2020 کے درمیان ہوئیں، یہ کیسز نام نہاد غیرت کے نام پر قتل، خواتین کے اغوا، جنسی حملوں، ملازمت کی جگہوں پر ہراسانی، جبری مزدوری، کم عمری کی شادیوں، تیزاب گردی، چولہے سے جلنے کے حادثات، اقلیتوں پر تشدد اور مذہبی جذبات مجروح کرنے سے متعلق تھے۔
اس دوران سندھ میں ایک سو 8 خواتین نام نہاد ’ غیرت کے نام ‘ پر قتل کا شکار بنیں۔ ان جرائم میں مبینہ طور پر ملوث ایک سو 26 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا، پولیس نے 81 مقدمات میں چارج شیٹ فائل کی، 32 مقدمات کی تحقیقات جاری ہیں اور 73 عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں جب کہ 3 مقدمات کو خارج کردیا گیا تھا۔ اسی عرصے کے دوران سندھ میں لڑکیوں کی شادیوں اور اغوا کے مجموعی طور پر ایک ہزار ایک سو 58 کیسز پولیس کو رپورٹ کیے گئے جن میں 5 سو 50 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا، 3 سو ایک مقدمات کے چالان عدالتوں میں جمع کروائے گئے، 4 سو 66 مقدمات کی تحقیقات تاحال جاری ہیں جب کہ 3 سو 58 مقدمات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔ پولیس ترجمان نے کہا کہ ان مقدمات میں سے 26 کا سراغ نہیں ملا، دیگر 20 ’جعلی‘ تھے جب کہ 2 سو 49 مقدمات کو خارج کردیا گیا کیوں کہ تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ’اغوا شدہ‘ لڑکیوں نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی۔
ایک برس میں سندھ میں انسانی حقوق کی صورتحال کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے پولیس رپورٹ میں کہا گیا کہ مجموعی طور پر 132 خواتین یا لڑکیوں کو مختلف وجوہات کی بنا پر قتل کیا گیا اور ایک سو 74 مشتبہ ملزمان گرفتار ہوئے، 87 مقدمات کے چالان درج ہوئے، 42 مقدمات کی تحقیقات جاری ہیں اور 75 مقدمات عدالتوں میں زیرِسماعت ہیں۔
قتل کے 6 مقدمات میں پولیس شواہد تلاش نہیں کرسکی جنہیں خارج کردیا گیا۔ اسی عرصے کے دوران خواتین/ لڑکیوں پر تشدد کے مجموعی طور پر ایک سو 28 کیسز پولیس کو رپورٹ کیے گیے جن میں سے ایک سو 36 مشتبہ ملزمان کو گرفتار کیا گیا، 72 مقدمات کے چالان پیش کیے گئے، 45 مقدمات کی تحقیقات جاری ہیں جب کہ 64 مقدمات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔ پولیس ایک کیس میں شواہد تلاش نہیں کرسکی جب کہ 14 مقدمات کو خارج کردیا گیا۔
صوبے کے پولیس تھانوں میں چھوٹی بچیوں پر جنسی حملوں کے 6 مقدمات رپورٹ کیے گئے تھے گیے جن میں 11 مشتبہ ملزمان کو گرفتار کیا گیا، 4 مقدمات کے چالان پیش کیے گئے، ایک کیس کی تحقیقات جاری ہیں جب کہ دیگر 4 مقدمات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔
پولیس نے دعویٰ کیا کہ ایک برس میں خواتین کے خلاف تیزاب گردی کے صرف 3 کیسز رپورٹ کیے گئے جن میں 2 مشتبہ ملزمان کو گرفتار کیا گیا، 2 مقدمات کے چالان پیش کیے گئے جب کہ ایک کیس کی تحقیقات تاحال جاری ہیں۔ علاوہ ازیں ایک برس میں چولہے سے جلنے اور دیگر 35 کیسز رپورٹ کیے گئے اور 19مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا، 22 مقدمات کے چالان درج کیے گئے، 5 مقدمات کی تحقیقات جاری ہیں جب کہ 23 کیسز عدالت میں زیرِ سماعت ہیں۔ پولیس 3 مقدمات میں شواہد تلاش نہیں کرسکتی جب کہ دیگر 8 مقدمات کو خارج کردیا گیا۔
پولیس نے کہا کہ گزشتہ ایک برس میں 95 خواتین کو ریپ کا نشانہ بنایا گیا اور 92 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا، 42 مقدمات کے چالان درج کیے گئے، 40 کی تحقیقات تاحال جاری ہیں اور 37 مقدمات کیسز میں زیرِ سماعت ہیں۔ ریپ کے 3 مقدمات کا سراغ نہیں لگایا جاسکتا جب کہ دیگر 5 کو خارج کردیا گیا تھا۔ 7 خواتین گینگ ریپ کا نشانہ بنیں اور ان میں 9 مشتبہ ملزمان کو گرفتار کیا گیا، 4 مقدمات کے چالان پیش کیے گئے، دیگر 3 کی تحقیقات تاحال جاری ہیں جب کہ 2 مقدمات عدالت میں زیرِ سماعت ہیں۔ ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک برس میں ملازمت کی جگہوں پر ہراسانی کے 35 مقدمات رپورٹ کیے گئے جن میں37 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا، 15 مقدمات کے چالان پیش کیے گئے، 2 کی تحقیقات تاحال جاری ہیں جب کہ 14 مقدمات عدالت میں زیرِ سماعت ہیں۔ ایک کیس کا سراغ نہیں لگایا جاسکے جب کہ دیگر 7 کو خارج کردیا گیا۔
پولیس نے یہ بھی کہا کہ مدرسوں اور اسکولوں سے لڑکوں پر جنسی حملوں کے 6 مقدمات بھی درج کیے گئے، ان میں 7 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا، 3مقدمات کے چالان پیش کیے گئے، 2 کی تحقیقات تاحال جاری ہیں جب کہ 2 مقدمات عدالت میں زیرِ سماعت ہیں اور ایک کیس کا خارج کردیا گیا تھا۔ اسی طرح ’ جبری مزدوری‘ کے 6 مقدمات رپورٹ کیے گئے جن میں 19 مشتبہ ملزمان کو گرفتار کیا گیا، 3مقدمات کے چالان پیش کیے گئے، 2 مقدمات عدالت میں زیرِ سماعت ہیں جب کہ 2 مقدمات کو خارج کردیا گیا تھا۔ پولیس نے دعویٰ کیا کہ ’ چائلڈ لیبر‘ کے صرف 2 مقدمات رپورٹ کیے گئے جن میں 7 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا جب کہ 2 کی تحقیقات تاحال جاری ہیں۔
پولیس نے گزشتہ ایک برس میں بچوں کے اغوا کے 66 مقدمات رپورٹ کیے گئے جن میں 64 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا، 14 مقدمات کے چالان پیش کیے گئے، 41 کی تحقیقات تاحال جاری ہیں جب کہ 17 مقدمات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔ ایک مقدمے کا سراغ نہیں لگایا جاسکا جب کہ دیگر 3 مقدمات کو خارج کردیا گیا تھا۔ اسی عرصے کے دوران لڑکوں پر جنسی حملوں کے 41 مقدمات درج کیے گئے، پولیس نے 58 مشتبہ ملزمان کو گرفتار کیا، 22 کے چالان پیش کیے گئے، 18 مقدمات کی تحقیقات تاحال جاری ہیں جب کہ عدالتوں میں 12 مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔ایک کیس کا سراغ نہیں لگایا جاسکا جب کہ دیگر 2 مقدمات کو خارج کردیا گیا۔
پولیس ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ کم عمری کی شادیوں کے صرف 9 مقدمات رپورٹ کیے گئے جن میں19 مشتبہ ملزمان کو گرفتار کیا، 5 کے چالان پیش کیے گئے، 4مقدمات کی تحقیقات تاحال جاری ہیں جب کہ عدالتوں میں 2 مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔ پولیس نے ایک برس میں لڑکوں کے ’جنسی استحصال‘ کے 39 مقدمات درج کیے، 33 مشتبہ ملزمان کو گرفتار کیا ،26کے چالان پیش کیے گئے، 13مقدمات کی تحقیقات تاحال جاری ہیں جب کہ عدالتوں میں 21 مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔ پولیس نے کہا کہ مذہبی جذبات مجروح کرنے سے متعلق 6 مقدمات درج کیے گئے جن میں 8 مشتبہ ملزمان کو گرفتار کیا گیا جب کہ 4 مقدمات عدالت میں زیرِ سماعت ہیں۔ اسی طرح عبادت گاہوں میں اقلیتوں پر تشدد کے صرف 3 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں 4 مشتبہ ملزمان کو گرفتار کیا گیا، ایک کیس کا چالان پیش کیا گیا جب کہ دیگر ایک مقدمے کی تحقیقات جاری ہیں۔پولیس ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ میں قائم ماڈل کورٹس نے لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کی ہدایات پر حال ہی میں قتل کے 5 ہزار 5 سو 22 اور منشیات کے 8 ہزار 9 سو 88 مقدمات میں سزائیں سنائیں۔ ان مقدمات میں پولیس کے تفتیش کاروں نے مجموعی طور پر 65 ہزار 9 سو 50 گواہان کو پیش کیا جس کی مدد سے عدلیہ کو اتنی بڑی تعداد میں مقدمات کا فیصلہ کرنے میں مدد ملی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button