کلبھوشن پر نوازشات کرنے والے اپنے فوجی کا کیوں نہیں سوچتے؟

ایک جانب حکومت پاکستان جاسوسی کے الزام پر گرفتار بھارتی کلبوشن یادیو کو ریلیف دینے کے لیے خصوصی آرڈیننس جاری کر رہی ہے تو دوسری طرف 1971 سے بھارت میں قید پاکستانی فوجی بنات خان کو مکمل طور پر بھلا دیا گیا ہے اور اس کی رہائی کے لیے کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔
اس وقت ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹنے والے سینکڑوں پاکستانی بھارت کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ انہی میں ایک 1971 کی پاک بھارت جنگ میں قید ہونے والا پاکستانی سپاہی بنات خان بھی ہے جس کی رہائی کیلئے نہ تو کسی سطح پر کوئی آواز بلند کی جا رہی ہے اور نہ ہی بھارت میں اسے اپنا کیس لڑنے کیلئے کسی قسم کی قانونی معاونت حاصل ہے۔ دوسری طرف پاکستان پر حملہ کرنے والے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی جذبہ خیر سگالی کے تحت فوری رہائی اور انسانی اور عالمی قوانین کے پاسداری کرتے ہوئے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو تک سفارتی رسائی، اس کے اہلخانہ سے ملاقات اورصدارتی آرڈیننس کے اجراء سمیت مختلف اقدامات کئے جا رہے ہیں اور اس کی توجیح یہ پیش کی جارہی ہے کہ پاکستان عالمی عدالت انصاف اور جینوا معاہدے کے تحت کلبھوشن کو اپیل کا حق دینے کا پابند ہے۔
ایسے میں سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا جینوا معاہدے اور عالمی قوانین کا اطلاق صرف بھارتی فوجی قیدیوں پر ہی ہوتا ہے۔ 1971 سے بھارت میں قید پاکستانی فوجی بنات خان پر اس قانون کا اطلاق کیوں نہیں ہوتا؟
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کے مطابق کلبھوشن کیلئے صدارتی آرڈیننس لاکر پاکستان نے انڈیا کے ہاتھ کاٹ دئیے ہیں اب وہ کلبھوشن کے حوالے سے کسی بھی عالمی فورم پر پاکستان پر دباؤ ڈلوانے میں کامیبا ب نہیں ہو گا۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت میں نصف صدی سے گرفتار فوجی بنات خان کے لیے انصاف کون مانگے گا اور اس کو رہا کروا کر پاکستان کون لائے گا؟ بنات خان کیلئے نہ تو بھارت سے کوئی انسانی حقوق کی تنظیم آواز اٹھا رہی ہے اور نہ ہی پاکستانی فوجی و سول حکام کی طرف سے اس حوالے سے بھارتی حکومت سے کوئی مطالبہ نہیں کیا جا رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستانی حکام اس بات سے بھی بے خبر ہیں کہ پاکستان کیلئے لڑنے والا فوجی جوان اس وقت کہاں ہے اورکس حال میں ہے؟
حالانکہ زمینی حقائق کے مطابق ابھی نندن اور کلبھوشن جادیو دونوں پاکستانی حدود میں غیرقانونی اور خطرناک جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے اور بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے داخل ہوئے جبکہ ان کے برعکس ایک پاکستانی فوجی سپاہی اپنی ہی سرزمین پر اپنے ہی وطن کا جائز اور قانونی دفاع کرتا ہوا بھارتی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوا تھا۔ اب نصف صدی ہونے کو آئی اور کسی نے مڑ کر پوچھا بھی نہیں کہ وہ زندہ بھی ہے یا دشمن ملک کی کسی جیل میں اپنوں سے دوری، بےگناہی اور بےوطنی کے عذاب جھیلتے جھیلتے اپنی آزادی کے خوابوں اور گھر لوٹنے کی حسرتوں سمیت مر گیا ہے۔
بنات خان کا تعلق ضلع صوابی کے نواحی گاؤں سے تھا۔ چھ فٹ لمبا قد اور اسی طرح سرخ و سفید رنگت جو اس علاقے کے لوگوں کا عمومی طور پر خاصا ہے۔ ساٹھ کے عشرے میں جب وہ 22 سال کا ایک خوبرو نوجوان تھا وہ پاک فوج میں بحیثیت سپاہی بھرتی ہوا۔ فوج میں ملازمت کرتے ہوئے تقریباً چھ سال بعد اس کے خاندان والوں نے اس کی منگنی بھی کر دی اور ارادہ ظاہر کیا کہ جوں ہی اسے چھٹی ملے گی اس کی شادی کر دی جائے گی لیکن تب کسے معلوم تھا کہ تھوڑا سا آگے عمر بھر کی بدنصیبی اسے لپٹ جائے گی۔ تاہم 1970 میں فوج کی تعداد میں کمی کی جانے لگی تو بنات خان کو بھی پنشن اور مراعات سمیت فارغ کر دیا گیا۔ تب اس کی عمر 27 یا 28 سال تھی۔ وہ گاؤں پہنچا تو اس کی شادی کی تیاریاں کی جانے لگیں کہ اس دوران پاک بھارت جنگ چھڑ گئی اور اسے فوجی روایت کے مطابق پھر سے محاذ جنگ پر بلا لیا گیا۔
دوسرے دن صبح سویرے اس کی بوڑھی والدہ نے اس کا آخری بوسہ لیا اور وہ چل پڑا۔ پھر وہ دن اور آج کا دن بنات خان لوٹ کر نہیں آیا۔ پاک بھارت جنگ اختتام کو پہنچی اور 90 ہزار پاکستانی بھارتی جیلوں میں گئے تو بنات خان بھی انہی میں سے ایک تھا۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ساتھ شملہ معاہدہ کیا اور یوں 90 ہزار قیدیوں کی رہائی بتدریج ہونے لگی۔ اب بنات خان کی بوڑھی ماں کے کان ریڈیو اور آنکھیں دروازے پر رہنے لگیں لیکن نہ انہوں نے اس کا نام سنا نہ آنکھوں نے اسے دوبارہ دیکھا۔ اطلاعات کے مطابق کچھ عرصہ قبل بنات خان دہلی کی نواحی جیل میں قید تھا۔ ایک طویل اذیت سہتے اور اپنے گم شدہ بیٹے کی راہ تکتے تکتے 12 سال بیت گئے اور یہ بدنصیب ماں اپنے آنسوؤں اور ناتمام حسرتوں سمیت قبر میں اتر گئی۔
بنات خان کا چھوٹا بھائی حیات خان اب بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑا ہے لیکن اس کی ہمت کی جوانی اب بھی قائم ہے۔ وہ روز صبح کاغذات کے پلندے جس میں بنات خان کی تصویر، سرکاری کاغذات مختلف درخواستیں اور اخبارات کے تراشے وغیرہ شامل ہیں اٹھائے گھر سے نکلتا ہے اور ہر اس دروازے پر دستک دیتا رہتا ہے جہاں اسے امید کی ہلکی سی کرن بھی دکھائی دیتی ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری سے لے کر مختلف ٹی وی چینلز اور سیاسی رہنماؤں سے اخبارات کے دفاتر تک کوئی در اس نے چھوڑا نہیں لیکن امید اور بےحسی کی اس جنگ میں پلڑا ابھی تک بےحسی اور بدنصیبی کا ہی بھاری ہے۔ نہ تو بنات خان کی رہائی کے حوالے سے نہ تو فوجی حکام کی طرف سے کوئی اقدامات کئے جا رہے ہیں اور نہ ہی پاکستانی حکام اس حوالے سے کوئی آواز اٹھا رہے ہیں۔ دوسری طرف بھارتی پائلٹ ابھی نندن نے بموں سے لیس جہاز اڑایا اور غیرقانونی اور غیراخلاقی طریقے سے پاکستانی حدود میں داخل ہوا لیکن اس کے کسی انتشار انگیز اقدام سے قبل پاکستانی جوان نے اس کا طیارہ مار گرایا۔ ابھی نندن زندہ بچا لیکن اس واقعے کے چند گھنٹے بعد وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہوکر خیر اور انسانیت کا ایک پیغام دیتے ہوئے دشمن ملک کے پائلٹ کی رہائی کا اعلان کیا اور وہ اپنے ملک بھی لوٹ گیا۔
صرف یہی نہیں بلکہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو غیرقانونی طریقے سے ایران کے راستے جاسوسی جیسے خطرناک جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے بلوچستان میں داخل ہوا اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہوا۔ اسے مکمل قانونی مدد بھی فراہم کی جا رہی ہے حتیٰ کہ اپنے خاندان اور قونصلر تک رسائی سے بھی محروم نہیں رکھا گیا بلکہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کلبھوشن کو ایک بڑا ریلیف بھی دیا جا سکتا ہے۔
لیکن اپنی سرزمین میں اپنی ہی زمین کا دفاع کرتے ہوئے بنات خان نامی پاکستانی سپاہی اپنے بنیادی اور انسانی حقوق سے محروم کیوں ہے۔ جینیوا کنونشن کے چارٹر کے حوالے سے بھی بنات خان کو یہ حقوق حاصل ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی قوانین کی پاسداری اور جینوا معاہدے کے تحت کلبھوشن کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے تمام تر اقدامات کرنے والی کپتان سرکار پاکستانی فوجی بنات خان کی رہائی کیلئے کسی قسم کی آواز اٹھانے سے گریزاں کیوں ہے؟