کپتان حکومت یوٹیوب چینلز پر بڑے حملے کو تیار

فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آنے والی پی ٹی آئی حکومت میڈیا کی رہی سہی آزادی چھیننے کے لیے جو ڈریکونین قانون لا رہی یے اس کا بنیادی مقصد مین سٹریم الیکٹرانک میڈیا سے زیادہ سوشل میڈیا کو قابو کرنا ہے خصوصا اسٹیبلشمینٹ کی سیاست میں مداخلت کی مخالفت کرنے والے یو ٹیوب چینلز کو۔
صحافتی تنظیموں اور سول سوسائٹی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں میڈیا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے آرڈیننس کے نفاذ کے بعد ملک میں تنقیدی یوٹیوب چینلز ختم ہو جائیں گے اور آزادی اظہار رائے کا تصور ناپید ہو جائے گا۔ کئی حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ حکومت اس آرڈیننس کو لا کر کیا کرنا چاہتی ہے۔ معروف صحافی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی فیڈرل ایگزیکیٹو کونسل کے رکن ناصر ملک کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس آرڈیننس کا بغور مطالعہ کیا ہے اور یہ بہت ڈریکونین ہے۔ انہوں نے بتایا، "جو یوٹیوب چینلز چلا رہے ہیں، اب ان کو پہلے اس کا لائسنس لینا پڑے گا اس لائسنس میں بہت ساری شرائط ہیں اور اس کی اچھی خاصی فیس ہو گی۔ اس کے علاوہ ان کو این او سی یا نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ بھی لینا پڑے گا اور ظاہر ہے یہ سب کو پتہ ہے کہ این او سی کس طرح جاری کیا جاتا ہے اور کون جاری کرتا ہے اس کے لئے سکیورٹی کلیئرنس ضروری ہوگئی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس آرڈیننس کے ڈرافٹ میں نظریہ پاکستان، قومی سلامتی اور دوسری اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں، جن کی کسی بھی طرح سے تشریح کی جا سکتی ہے۔ خلاف ورزی کرنے پر ڈھائی کروڑ کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے اور سزا بھی دی جا سکتی ہے۔‘‘
معروف صحافی اور انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹربیون کے سابق ایگزیکٹو ایڈیٹر ضیا الدین کا کہنا ہے کہ حکومت کا بنیادی مقصد اس آرڈیننس کے ذریعے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنا ہے، جہاں کئی ایسے اینکرز بیٹھے ہوئے ہیں جو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو قابل قبول نہیں ہے۔ انہوں نے کو بتایا، ” اس آرڈیننس پر کافی مدت سے کام ہو رہا تھا۔ مریم اورنگزیب کے دور میں بھی اسی نوعیت کا ایک آرڈیننس لانے کی کوشش کی گئی تھی جبکہ فواد چوہدری جب پہلے وزیر اطلاعات بنے، تو انہوں نے اس طرح کے آرڈیننس لانے کی کوشش کی تھی اور اب یہ دوبارہ آرڈیننس لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ ضیا الدین کے مطابق، ”ایسے حکومتی اقدامات کے بعد یہ یوٹیوب چینلز بند ہو جائیں گے اور ہر چیز ریاست کے کنٹرومیں چلی جائے گی۔‘‘
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کا کہنا ہے کہ حکومتی اقدامات صحافیوں کے معاشی قتل عام کے لئے ہیں۔ یونین کے سیکریٹری جنرل ناصر زیدی نے مجوزہ قانون کو سیاہ قرار دیتے ہوئے کہنا ہے کہ یوٹیوب چینلز کے بند ہونے سے تنقیدی رائے رکھنے والے صحافیوں کے لئے معاشی تباہی آئے گی۔ انہوں نے بتایا، ”ایسے صحافی جن کو تنقیدی نقطہ نظر کی وجہ سے روزگار سے ہاتھ دھونا پڑا اور ایسے صحافیوں نے یوٹیوب چینلز قائم کرکے اپنے پیشے کو زندہ رکھا، اب ایسے چینلز کے لیے کڑی شرائط لائی جارہی ہیں جس سے یہ چینلز بند ہو جائیں گے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنے ذریعہ معاش سے محروم ہو جائیں گے۔‘‘
صحافتی تنظیموں کا شکوہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اس مسئلے کو حقیقی معنوں میں نہیں اٹھا رہی ہیں۔ ناصر ملک کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے اس مسئلے پر کمزور آواز اٹھائی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ، ” پی ایف یو جے، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، پاکستان بار کونسل اور سول سوسائٹی تو اس مسئلے پر بول رہی ہیں لیکن سیاسی جماعتیں اس آرڈیننس کی پر زور انداز میں مذمت نہیں کر رہی ہیں۔ وہ یہ کہہ رہی ہیں کہ وہ اس قانون کے حق میں ووٹ نہیں دینگی لیکن ابھی تک ان کی مخالفت بہت زیادہ شدید نہیں ہے۔‘‘
دوسری طرف وزیر اطلاعات فواد چودھری کا کہنا ہے کہ دنیا کے دیگر مہذب ممالک کی طرح پاکستان میں بھی میڈیا کو مادر پدر آزاد ہونے کی بجائے کنٹرول کرنا ہوگا۔ انکا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق فوج اور عدلیہ پر تنقید نہیں کی جا سکتی لیکن یہاں تو فوج کو بدنام کیا جارہے ہے اس لیے نئے قوانین لانا ضروری ہو چک ہے۔ تاہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر اگر آئین کے مطابق فوج پر تنقید نہیں کی جا سکتی تو پھر نیا آرڈیننس لانے کی کیا ضرورت ہے اور آئین کے مطابق تنقید کرنے والوں کا محاسبہ کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ میڈیا پر کاٹھی ڈالنے کے لیے بنائے جانے والے نئے آرڈیننس کے مسودے میں بہت ساری قابل اعتراض باتوں کے علاوہ ایک انوکھا تجربہ کرنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے جس کے مطابق ریڈیو، ٹی وی، اخبارات، ڈیجیٹل میڈیا، سوشل میڈیا اور ویب ٹی وی چینل ایک ھکومتی اتھارٹی کے چیئرمین کے تابع ہوں گے اور انفارمیشن گروپ سے تعلق رکھنے والے افسر کو اس اتھارٹی کا چیئرمین بنایا جائے گا۔ حسب توقع اس نام نہاد کالے قانون، جسے میڈیا پر مارشل لا لگانے کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے، کے مطابق پاکستان کے قومی نظریے، سکیورٹی جیسے معاملات پر خیال آرائی کی اجازت نہیں ہو گی۔ یاد رہے کہ ایسی ہی پابندیاں۔لگانے کے لیے ماضی کی حکومتیں بھی کئی قوانین بنا چکی ہیں جو آج بھی موجود ہیں لیکن میڈیا پر مذید قدغن عائد کرنے کے لیے موجودہ ہائبرڈ حکومت ایک نیا قانون لانے پر مصر ہے۔

Back to top button