کپتان دور میں نیب نے 90 فیصد جھوٹے کیسز بنائے


وزیر اعظم عمران خان کے اقتدار میں آنے سے اب تک قومی احتساب بیورو کی کارکردگی کو سامنے رکھا جائے تو اس الزام کو تقویت ملتی ہے کہ یہ ادارہ فوجی آمر مشرف نے پولیٹیکل انجینرنگ کی غرض سے تشکیل دیا تھا۔ نیب کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق پچھلے دو برس کے دوران نیب کی جانب سے فائل کئے گئے 90 فیصد کیسز جھوٹ کا پلندہ نکلے اور ملزمان کی ضمانت ہو گئی۔
قومی احتساب بیورو یا نیب کی جانب سے گزشتہ دو سال کے دوران جن 36؍ اعلیٰ شخصیات پر اختیارات کے ناجائز استعمال یا مبینہ کرپشن کے جو مقدمات قائم کیے گئے ہیں؛ انہوں نے اپنے جسمانی ریمانڈ کے ہفتوں یا مہینوں کے اندر ہی ضمانت پر رہائی حاصل کر لی، جس سے نیب کیسز کی صداقت اور ادارے نیت پر شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ نیب کی ناکامی کی وجہ سے اس قومی ادارے پر اپوزیشن جماعتوں کے ان الزامات کو تقویت ملتی ہے کہ اسے صرف سیاست دانوں، سرکاری ملازمین اور کاروباری اشخاص کو حکومتی ایما پر نشانہ بنانے اور اپنی باتیں منوانے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
پچھلے دو برسوں کے دوران نیب کی جانب سے بنائے گئے 36 ہائی پروفائل کیسوں کا جائزہ لیا جائے تہ پتہ چلتا ہے کہ 90؍ فیصد ملزمان نے طویل جسمانی ریمانڈ کا عذاب برداشت کرنے کے بعد عدالتوں سے ضمانت حاصل کر لی۔ ہر ملزم نے اوسطاً 41؍ دن نیب کی حراست میں جبکہ 146؍ دن جوڈیشل حراست میں گزارے۔ جن تمام ملزمان کو ضمانت پر رہائی ملی، وہ مجموعی طور پر 5؍ ہزار دن تک ناجائز نیب حراست میں رہے جبکہ نیب نے انہیں 1400؍ دن تک جسمانی ریمانڈ پر رکھا۔ دو کاروباری شخصیات ایسی تھیں جنہیں عدالت نے سات ماہ بعد بری کر دیا۔ ایک ملزم نیب کی حراست میں انتقال کر گیا جبکہ ایک نے خودکشی کرلی۔ ملزم احد چیمہ نے جیل میں 616؍ دن، شرجیل میمن 606 دن، ڈاکٹر عاصم 409 اور خواجہ سعد رفیق نے 404؍ دن جیل میں گزارے۔ شہباز شریف نے 79؍ دن نیب کی حراست میں گزارے، حمزہ شہباز نے 83؍، شاہد خاقان عباسی 68؍، احد چیمہ 90؍ اور فواد حسن فواد نے 90؍ دن یعنی اپنی حراست کا زیادہ حصہ نیب کی حراست میں گزارا۔
نیب نے کسی بھی ملزم کو گرفتار کرنے میں کم از کم 3؍ جبکہ زیادہ سے زیادہ 11؍ سال لگائے جبکہ میر شکیل الرحمان کا کیس واحد تھا جسمیں ملزم کو شکایت کی تصدیق کے مرحلے پر ہی گرفتار کرکے نئی تاریخ رقم کی گئی۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ نیب کے پاس طویل تر جسمانی ریمانڈ کا ایک ایسا ظالمانہ اختیار ہے جس کے ذریعے وہ ملزم کو کئی مہینوں تک قید تنہائی میں رکھ کر ثبوت تلاش کرسکتا ہے۔ نیب کے اپنے اعدادوشمار سے معلوم ہوا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں نے 32؍ ہائی پروفائل کیسز میں ملزمان کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے نیب کی پراسیکوشن ٹیموں کے موقف کو مسترد کیا۔ ان افراد میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل، پی ٹی آئی کے سینئر رہنما علیم خان، پی ٹی آئی رکن صوبائی اسمبلی سطبین خان، سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، کاروباری شخصیات اقبال زیڈ احمد اور عثمان جاوید، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے سابق وزیر احسن اقبال، ریلویز کے سابق وزیر سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق، نون لیگ کے رہنما قمر الاسلام، سرکاری ملازمین فواد حسن فواد، احد چیمہ طیبہ فاروق اور ان کے شوہر محمد فاروق، سندھ کے سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن، سابق وزیر پٹرولیم عاصم حسین، اسپیکر سندھ اسمبلی سراج درانی، یوسف عباس شریف، سابق ایم ڈی پی ایس او عمران الحق، نون لیگ کی رہنما مریم نواز، بلوچستان کے سابق مشیر خزانہ خالد لانگرواور دیگر کئی افراد شامل  ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button