بیروت بندرگاہ پربدترین دھماکے کے ایک مہینے بعد خوفناک آگ بھڑک اٹھی

لبنان کے دارالحکومت بیروت میں سینکڑوں جانوں کے ضیاع کا باعث بننے والے بدترین دھماکے کے ایک مہینے بعد ایک مرتبہ پھر خوف ناک آگ بھڑک اٹھی۔
خبرایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق بیروت پورٹ میں آتشزدگی سے شہریوں میں خوف وہراس پھیل گیا۔دھماکے کی وجوہات فوری طور پر واضح نہیں ہوسکیں جبکہ گزشتہ ماہ امونیم نائٹریٹ اور دھماکہ مواد کے گودام میں دھماکا ہوا تھا جس سے تقریباً200 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوگئے تھے۔رپورٹ کے مطابق بیروت پورٹ میں دوپہر کے وقت آتشزدگی ہوئی، شعلے بلند ہوئے اور دھوئیں نے پورے بیروت کو لپیٹ میں لیا تاہم امدادی کارکن اور فائر فائٹرز فوری طور پر جائے وقوع پر پہنچ گئے۔آگ پر قابو پانے کے لیے سول انتظامیہ کے ساتھ ساتھ فوجی ہیلی کاپٹر نے بھی حصہ لیا۔


لبنان کی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ آگ ایک گودام میں لگی جہاں تیل اور ٹائرز رکھے ہوئے تھے اور یہ علاقہ ڈیوٹی فری تھا۔بیان میں کہا گیا کہ آگ پر قابو پانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔عینی شاہد خاتون کا کہنا تھا کہ واقعے کے وقت ہم اپنے گھر میں کھڑکیاں کھول پر کوریڈور میں بیٹھے ہوئے اور اب بھی زلزلہ محسوس ہورہا ہے۔سوشل میڈیا میں گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں پورٹ میں آگ لگتے ہی مزدوروں کو خوف کے عالم میں بھاگتے ہوئے دکھا جاسکتا ہے۔جائے وقوع کے قریب تعینات سیکیورٹی اہلکاروں نے ٹریفک کو دوسری سمت منتقل کردیا۔


لبنان کی سرکاری خبر ایجنسی کا کہنا تھا کہ آگ ٹائروں کے گودام میں لگی جس کو بجھانے کے لیے فائر فائٹرز مصروف ہیں۔بیروت کے گورنر مروان عبود اور دیگر حکام نے شہریوں سے پورٹ کی طرف جانے والے راستوں سے دور رہنے کی اپیل کی تاکہ امدادی کاموں میں رکاوٹ پیش نہ آئے۔پورٹ کے ڈائریکٹر باسم القیسی نے مقامی ریڈیو کو بتایا کہ آگ تیل کے گودام میں بھڑک اٹھی جہاں تیل کے بیرل رکھے ہوئے تھے اور مزید پھیل گئی۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آگ لگنے کی وجہ گرمی یا اور کوئی غلطی ہے’۔انہوں نے کہا کہ ٹائروں سے سیاہ دھواں اٹھ رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق رواں ہفتے اس سے قبل ہی پورٹ میں آگ لگنے کا واقعہ پیش آیا تھا، آگ پر جلد قابو پالیا گیا تھا لیکن شہریوں میں خود پھیل گیا تھا۔
یاد رہے کہ بیروت میں 4 اگست کوتقریباً 2 ہزار ٹن سے زائد امونیم نائٹریٹ کے خوف ناک دھماکے میں 190 سے زائد افراد ہلاک اور 6 ہزار زخمی ہوگئے تھے۔دھماکے کے بعد ملک میں حکمران طبقے کے خلاف شدید احتجاج کے نتیجے میں اس وقت کے وزیراعظم حسن دیب اور ان کی کابینہ نے استعفیٰ دے دیا تھا۔وزیر برائے پبلک ورک مشیل نجر نے کہا تھا کہ ‘میں امید کرتا ہوں کہ نگراں حکومت کی مدت طویل نہیں ہوگی کیونکہ ملک اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا، امید ہے کہ جلد ہی ایک نئی حکومت تشکیل دی جائے گی’۔انہوں نے کہا کہ ‘ایک موثر حکومت ہی ہمیں بحران سے نکال سکتی ہے’۔اس سے قبل لبنان کے شہر بیروت میں ہزاروں مشتعل افراد نے وزارت خارجہ اور وزارت اقتصادیات کے دفاتر پر دھاوا بول دیا تھا۔مظاہرین نے وسطی بیروت میں پارلیمنٹ کی عمارت تک جانے کی کوشش کی اور اس دوران مظاہرین اور پولیس کے مابین کشیدگی بھی ہوئی تھی۔لبنان کے سیاسی بحران میں اس وقت بہتری آئی جب فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون کی مداخلت سے رواں ماہ کے اوائل میں سفارت کار مصطفیٰ ادیب کو ملک کا نیا وزیر اعظم منتخب کر لیا گیا۔مصطفیٰ ادیب نے منصب سنبھالنے کے بعد کہا تھا کہ ‘ہمارے ملک کے لیے بہت محدود موقع ہے اور جو مشن میں نے قبول کیا ہے اس پر تمام سیاسی فورسز کا اتفاق ہے’۔نئے وزیراعظم نے باصلاحیت ٹیم کے انتخاب کا عزم کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘مذاکرات اور وعدوں کا وقت نہیں ہے بلکہ سب کے تعاون سے کام کرنے کا وقت ہے’۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button