کپتان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان متنازعہ کیوں ہیں؟

وزیراعظم عمران خان کے متنازعہ پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اس قدر با اثر ہیں کہ انہوں نے کپتان کے بعد ڈپٹی پرائم منسٹر سمجھے جانے والے جہانگیر خان ترین کو ناک آؤٹ کر دیا جس کا اعتراف خود ترین نے بھی کیا ہے۔ تاہم بیوروکریسی کے امور پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ پرنسپل سیکریٹری وزیراعظم کے حکم کے بغیر خود کچھ نہیں کر سکتا۔ اگر واقعی اعظم خان نے جہانگیر ترین کو ناک آئوٹ کیا ہے تو یقیناً انہیں اس معاملے میں عمران خان کی آشیرباد حاصل تھی۔
یاد رہے کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی گزشتہ حکومت میں چیف سیکریٹری کے عہدے پر کام کرنے والے اعظم خان پہلے دن سے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کے طور پر کام کر رہے ہیں اوراب کپتان کے دست راست بن چکے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے خلاف احتساب بیورو کی طرف سے بنایا گیا مالم جبہ ریزورٹ لیز کیس بھی سرد خانے کی نذر کردیا گیا ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیر اعظم اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مابین دوریاں پیدا کرنے میں بھی اعظم خان کا بنیادی کردار ہے۔
حالیہ دنوں آٹے اور چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ میں نام سامنے آنے اور حکومتی زرعی ٹاسک فورس سے ہٹائے جانے کے بعد تحریک انصاف کے سینیئر رہنما جہانگیر ترین نے اپنے خلاف کارروائی کا ذمہ دار بھی وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کو قرار دیا ہے۔ ایک انٹرویو میں ترین نے اعظم خان کی بے انتہا طاقت اور اختیارات کے استعمال پر تنقید کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان سے یہاں تک کہہ دیا کہ بیوروکریسی کے ذریعے ملک نہیں چلایا جا سکتا، اس کے لیے سیاسی معاملہ فہمی ضروری ہوتی ہے۔
خیال رہے کہ اعظم خان پچھلے بیس ماہ سے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری ہیں اورانہیں اس وقت وہی اہمیت اور حیثیت حاصل ہے جو کسی زمانے میں نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کو حاصل تھی۔ ضلع مردان کے علاقے رستم میں پیدا ہونے والے اعظم خان کا تعلق ایک بڑے زمیندار گھرانے سے ہے۔ اعظم خان کے والد پاکستان ایڈمنسڑیٹیو سروس گروپ کے ریٹائرڈ افسر ہیں۔ اعظم خان نے برن ہال کالج ایبٹ آباد سے تعلیم حاصل کی اور سول سروس کے امتحان میں ٹاپ پوزیشن حاصل کرنے کے بعد متعدد اہم پوزیشنز پر تعینات رہے۔ اپنی سروس کا زیادہ ترعرصہ اعظم خان نے صوبہ خیبر پختونخوا میں گزارا جہاں وہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پولیٹکل ایجنٹ بھی رہے اور پشاور کے کمشنر کے طور پر بھی اپنی خدمات سرانجام دیں۔صوبے کے مختلف محکموں میں جوائنٹ سیکرٹری، ایڈشنل سیکرٹری کے طور پر کام کرنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے پچھلے دور حکومت میں اعظم خان صوبائی چیف سیکرٹری کے عہدے تک پہنچے جہاں صوبائی حکومت کے اہم اجلاسوں میں شرکت کرنے والے پارٹی چیئرمین عمران خان کی نظر انتخاب ان پر ٹھہری۔
2018 کے انتخابات میں وزیراعظم بننے کے فورا بعد عمران خان نے کئی دوسرے سینیئر افسران کی موجودگی کے باجود اعظم خان کو اپنا پرنسپل سیکرٹری تعینات کر دیا جو پاکستان میں بیوروکریسی کا سب سے اہم عہدہ سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وزیراعظم کا پرنسپل سیکرٹری اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ وفاقی وزرا بھی اس سے کم اثر رسوخ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی رہنما اس عہدے کے حوالے سے شاکی نظر آتے ہیں۔ اعظم خان سے جہانگیر ترین کو ہی مسئلہ نہیں بلکہ تحریک انصاف کے دیگر کئی دیگر وفاقی وزرا بھی نجی محفلوں میں اعظم خان کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اعظم خان نے تحریک انصاف کے دوسرے بااثر ترین رہنما جہانگیر ترین کے ساتھ پنگا لے کر اور پھر انہیں زیر کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ انہیں وزیراعظم کی آشیرباد اور انکا اعتماد بھی حاصل ہے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد بھی اسی طاقت اور حیثیت کے باعث وزیراعظم کے ساتھیوں کی تنقید کا نشانہ بنتے رہے۔ تاہم جیسے ہی نواز شریف کی گرفتاری ہوئی فواد حسن فواد کو بھی گرفتار کر لیا گیا اور پھر انھیں کئی سال جیل میں رہنا پڑا۔ تاہم بیوروکریسی کے امور پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ کسی بھی وزیراعظم کا پرنسپل سیکرٹری اپنا کوئی فیصلہ وزیراعظم کی مرضی کے بغیر نہیں کرتا اور وہ اپنی طاقت وزیراعظم کے دفتر سے ہی حاصل کرتا ہے۔تجزیہ کاروں کہنا ہے کہ شوگر سکینڈل کی انکوائری رپورٹ اور پھر جہانگیر ترین کے خلاف ایکشن پر ترین کی جانب سے اعظم خان پر تنقید کا جواز نہیں بنتا کیونکہ تمام فیصلے اصل میں وزیراعظم عمران خان کی مرضی سے ہی ہوئے ہیں۔
دوسری طرف سیاسی حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اعظم خان کے انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ ڈاکٹر سلمان خان کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات ہیں جس کی وجہ سے آئی بی کی انکوائری رپورٹس ان سے شئیر ہو جاتی ہیں۔یہی نہیں بلکہ خیبر پختونخوا کی بیوروکریسی میں آج بھی اعظم خان کا اتنا اثر و رسوخ ہے کہ بعض حلقوں میں وہ وزیراعلی جتنے طاقتور سمجھے جاتے ہیں۔ وہ اپنے قریبی سرکاری افسران کا خیال رکھنے کے لیے مشہور ہیں۔ تاہم نیب کے مالم جبہ ریزورٹ لیز کیس میں ان کا نام بطور ملزم موجود ہے۔ اس کیس میں وہ نیب کے دفتر میں پیش بھی ہو چکے ہیں۔ نیب کے مطابق سابق وزیراعلی پرویز خٹک کے دور میں لیز پالیسی تبدیل کرکے محکمہ جنگلات کی 270 ایکڑ زمین لیز پر دے دی گئی جو قواعد کی خلاف ورزی ہے۔ تاہم اعظم خان اپنے خلاف الزامات کی مکمل تردید کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ان کا اس سکینڈل سے کوئی تعلق اس لیے نہیں بنتا کہ متنازعہ ٹھیکہ دیے جانے کے بعد ان کی متعلقہ محکمے میں تعیناتی ہوئی تھی۔تاہم سیاسی حلقوں میں اس حوالے سے یہی رائے پائی جاتی ہے کہ چونکہ اعظم خان، عمران خان کے دست راست ہیں اس لئے وزیراعظم، اعظم خان کے خلاف نیب کو کارروائی کی اجازت نہیں دے رہے۔