کیا تفصیلی فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن ججز کی مانے گا یا حکومت کی؟
سپریم کورٹ کے 8 عمراندار ججز کی جانب سے جسٹس منصور علی شاہ کی زیر قیادت بالآخر تقریباً اڑھائی ماہ بعد مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری ہونے کے بعد اب دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کمیشن اس فیصلے پر عمل کرے گا یا پارلیمنٹ کی جانب سے الیکشن ایکٹ میں آئینی ترمیم کے مطابق فیصلہ کرے گا۔
8 مخصوص ججز نے مخصوص نشستوں کے کیس میں تفصیلی فیصلہ دیتے ہوئے نہ صرف الیکشن کمیشن کا یکم مارچ 2024 کا فیصلہ آئین سے متصادم قرار دیا ہے بلکہ سپریم کورٹ میں درخواست دائر نہ کرنے والی تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔
خیال رہے کہ 8 ججز کا مخصوص نشستوں سے متعلق تفصیلی فیصلہ 70 صفحات پر مشتمل ہے، تفصیلی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔تفصیلی فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کوکالعدم قرار دیتی ہے، الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے رویے پر بھی حیرانی کا اظہارکرتے ہوئےکہا کہ الیکشن کمیشن بنیادی فریق مخالف کے طور پر کیس لڑتا رہا حالانکہ الیکشن کمیشن کا بنیادی کام صاف شفاف انتخابات کرانا ہے، الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی عمل میں نمایاں غلطیوں کے باعث عدالتی مداخلت ضروری ہو جاتی ہے۔تفصیلی فیصلے کے مطابق رول 94 آئین اور الیکشن ایکٹ 2017 سے متصادم ہے، رول 94 مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے طریقہ کار سے متعلق ہے، انتخابی رولز الیکشن ایکٹ کے مطابق ہی بنائے جا سکتے ہیں، انتخابی رولز میں ایسی چیز شامل نہیں کی جا سکتی جو الیکشن ایکٹ میں موجود نہ ہو، رول 94 کی وضاحت میں لکھا گیا ہے کہ سیاسی جماعت اسے تصور کیا جائے گا جس کے پاس انتخابی نشان ہو، رول 94 کی وضاحت آئین کے آرٹیکل 51(6) اور الیکشن ایکٹ کی شق 106 سے متصادم ہے، انتخابی نشان نہ ہونے پر مخصوص نشستیں نہ دیا جانا الیکشن کمیشن کی طرف سے اضافی سزا ہے۔
فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ بلے کے نشان والے کیس میں پارٹی کے آئینی حقوق واضح کرتی تو کنفیوژن پیدا ہی نہ ہوتی، الیکشن کمیشن نے بھی اپنے حکم نامہ میں پی ٹی آئی کے آئینی حقوق واضح نہیں کیے، عدالت اور الیکشن کمیشن کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا کہ انتخابی شیڈیول جاری ہو چکا ہے، واضح قانون کے بغیر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی، آئین میں دیے گئے حقوق کو کم کرنے یا قدغن لگانے والے قوانین کا جائزہ تنگ نظری سے ہی لیا جا سکتا ہے، جمہوریت میں انفرادی یا اجتماعی حقوق میں کم سے کم مداخلت یقینی بنانی چاہیے، انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے کی سزا انتخابی نشان واپس لینے سے زیادہ کچھ نہیں، انتخابی نشان واپس لیے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی جماعت کے آئینی حقوق ختم ہو گئے۔
فیصلے میں الیکشن کمیشن کو چارج شیٹ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کا ضامن اور حکومت کا چوتھا ستون ہے، الیکشن کمیشن فروری 2024 میں اپنا یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا۔فیصلے میں بتایا گیا کہ عوام کی خواہش اور جمہوریت کے لیے شفاف انتخابات ضروری ہیں، تحریک انصاف قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے، الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کو نوٹیفائی کرے
خیال رہے کہ تفصیلی فیصلے سے قبل 12 جولائی کے فیصلے پر اس حوالے سے کافی تنقید کی گئی تھی کہ پاکستان تحریک انصاف جو کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست گزار ہی نہیں تھی اس کو 8 عمراندار ججز نے ریلیف کیسےدے دیا تاہم اب جاری کردہ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس مقدمے میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے فریق بننے کی درخواست دائر کی گئی تھی۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو ریلیف دینے پر وضاحت بھی کر دی، انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی کیس میں فریق بننے کی درخواست ہمارے سامنے موجود تھی، عمومی طور پر فریق بننے کی درخواست پر پہلے فیصلہ کیا جاتا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی ہو، سنی اتحاد کونسل یا کوئی اور سیاسی جماعت، سپریم کورٹ کے لیے سب سے اہم کام آرٹیکل (2)17 اور 19 کے تحت لوگوں کے حق رائے دہی کا تحفظ کرنا ہے، اس لئے اس دلیل میں کوئی وزن نہیں کہ سپریم کورٹ نے مروجہ قانونی طریقہ کار سے ہٹ کر پی ٹی آئی کی فریق بننے کی درخواست پر فیصلے سے قبل ہی اسے ریلیف دے دیا۔
تفصیلی فیصلے میں 8 عمراندار ججز نے 2 ججز کے اختلافی نوٹ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھاری دل سے بتاتے ہیں دو ساتھی ججز امین الدین اور جسٹس نعیم افغان نے ہمارے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا، جس انداز میں دو ججز نے اکثریتی فیصلے پر اختلاف کا اظہار کیا وہ مناسب نہیں۔فیصلے کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ 2 ججز اپنی حدود سے تجاوز کر گئے، انہوں نے 80 ریٹرن امیدواروں کو انتبا دہا اور الیکشن کمیشن کو اکثریتی حکم کی تعمیل نہ کرنے کا حکم دیا جو کہ اس عدالت کے 13 رکنی فل کورٹ بینچ کا فیصلہ تھا، ایسے مشاہدات انصاف کے اعلیٰ ترین ادارے کی سالمیت کو نقصان پہنچاتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ یہ عمل عدالتی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش ہے۔70 صفحات کے تفصیلی فیصلے میں 8 ججز نے سپریم کورٹ کے دو ججوں کی اپنے 12 جولائی کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دینے کے ریمارکس کو سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے اور کہا ہے کہ جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان کا عمل سپریم کورٹ کے ججز کے منصب کے منافی ہے۔
کیا علیمہ خان اپنے بھائی کی سیاسی جانشین بننے والی ہیں؟
یاد رہے کہ 12 جولائی کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دے دیا تھا۔ تاہم دوسری جانب وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کر رکھا ہے کہ مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کا فیصلہ پارلیمنٹ کی جانب سے حال ہی میں الیکشن ایکٹ میں کی گئی ترمیم کی روشنی میں کرے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق زیادہ امکان یہی ہے کہ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کی بجائے پارلیمنٹ کے فیصلے کی روشنی میں مخصوص نشستیں الاٹ کرے گا۔