کیا صارفین کو بجلی کے غلط بلز کی ادائیگی پر رقم واپس مل سکے گی؟

رواں برس جولائی اور اگست کے دوران بجلی کی کمپنیوں نے صارفین کو ان کے استعمال سے زیادہ بجلی کے غلط بل بھیج کر انہیں نقصان پہنچایا، اس بات کا انکشاف نیپرا کی جانب سے تفتیش کے دوران کیا گیا، اس بات کا انکشاف نیپرا کی جانب سے کیا گیا ہے۔یہ تحقیق اس وقت شروع کی گئی جب رواں سال جولائی اور اگست میں بڑی تعداد میں صارفین نے زیادہ بل آنے کی شکایات نیپرا میں درج کروائیں، شکایات اور عوامی سطح پر احتجاج کے بعد نیپرا نے تین سینئر اراکین اور علاقائی دفاتر کے سربراہان پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جس نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ملک کے کئی حصوں میں طے شدہ اوقات سے زائد دنوں میں استعمال ہونے والے یونٹس کے معیار کے مطابق غلط بلنگ کی اور کئی علاقوں میں خراب میٹر ہونے کی وجہ سے بھی صارفین کو بے پناہ نقصان پہنچایا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیشتر علاقوں میں میٹر ریڈنگ تجویز کردہ آلے کی بجائے محض سمارٹ موبائل فون کی مدد سے لی جا رہی ہے اور اس وجہ سے بھی بلوں میں ردوبدل کا امکان ہوتا ہے جو بدعنوانی کے خدشے کا باعث ہے۔ زائد المیعاد اور غلط بلنگ کرنے والی کمپنیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی، اس میں ملوث اہلکاروں کے خلاف تادیبی کارروائی اور جن صارفین نے زیادہ رقم ادا کی ہے ان کی رقم واپس دلوانے کیلئے اقدامات کیے جائیں۔رپورٹ میں یہ سفارش بھی کی گئی کہ بجلی کمپنیوں کو میٹر ریڈنگ کے لیے تجویز کردہ مخصوص آلہ خریدنا چاہئے کیونکہ اس آلے کے ذریعے کی جانے والی میٹر ریڈنگ میں رد و بدل کا امکان نہیں ہوتا، نیپرا کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس میں ابھی وقت لگ سکتا ہے، نیپرا کے ترجمان ساجد اکرم نے اُردو نیوز کو بتایا کہ نیپرا حکام نے غلط بلنگ میں ملوث کمپنیوں کو اظہار وجوہ کے لیے نوٹس جاری کیا ہے اور کہا ہے کہ ایک ماہ کے اندر اس معاملے کے متعلق آگاہ کریں۔ اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ وہ کمپنیاں اس پر عملدرآمد کرتی ہیں یا نہیں اور اس پر مزید کیا کارروائی کی جا سکتی ہے، تاہم توانائی سیکٹر کے ماہرین کا خیال ہے کہ صارفین کی طرف سے ادا کیے گئے زیادہ بلوں کی رقم انہیں واپس نہیں مل سکے گی۔توانائی امور کے تجزیہ کار علی خضر کے مطابق پاکستان میں اوور بلنگ کا مسئلہ نیا نہیں لیکن رواں سال جولائی اگست میں زیادہ بل بھیجے گئے جس کی وجہ سے لوگوں نے بڑے پیمانے پر احتجاج بھی کیا، ان کے خیال میں زیادہ بل ادا کرنے والے لوگوں کو ان کے پیسے واپس ملنے کا امکان نہیں۔اس رپورٹ کی تیاری کے لیے لوگوں کی تعداد کے نمونے پر سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں کہ تحقیق میں شامل لوگوں کی تعداد صارفین کی تعداد کے لحاظ سے مناسب تھی کہ نہیں، علی خضر کے مطابق اس رپورٹ کے متعلق یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کچھ مخصوص حلقے اس کے ذریعے بجلی کمپنیوں کے گورننگ بورڈز میں تبدیلی کے خواہاں ہیں۔