کیا مشین سے الیکشن مارشل لاء لائیں گے؟

کپتان حکومت کی جانب سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین یعنی ای وی ایم کے ذریعے اگلے الیکشن کروانے سے متعلق قانون سازی اور الیکشن کمیشن پر زبردستی حکومتی فیصلہ مسلط کئے جانے کے بعد سیاسی مبصرین کو مارچ 1977 کی انتخابی تاریخ دہرائے جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ واضح رہے کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ متنازعہ انتخابی اصلاحات کی منظوری کے بعد اعلان کر چکے ہیں کہ وہ ای وی ایم کے ذریعے ہونے والے انتخابات کو ابھی سے مسترد کرتے ہیں۔ کپتان حکومت کی جانب سے ای وی ایم کے استعمال پر اصرار کی وجہ سے اپوزیشن جماعتوں نے انتخابی نتائج پر ابھی سے تحفظات کا اظہار شروع کر دیا ہے جس سے آئندہ انتخابات مشکوک ہو چکے ہیں اور ای وی ایم کو لے کے 1977 جیسے حالات پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ 1977 کے الیکشن دھاندلی کے الزامات کی وجہ سے متنازع ہوئے تو چیف الیکشن کمشنر جسٹس سجاد احمد جان یہ بیان دینے پر مجبور ہو گئے تھے کہ الیکشن کمیشن کے تمام تر انتظامات کے باوجود ملک بھر میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کا ارتکاب کر کے ملک و ملت کے مفادات کو نقصان پہنچایا گیا، انہوں نے کہا تھا کہ الیکشن ایسے ہی تھا جیسے کوئی سجی سجائی دکان لوٹ کر لے جائے۔ اس بیان کے بعد پاکستان قومی اتحاد نے بھٹو حکومت کے خلاف ملک گیر تحریک شروع کردی جس کے نتیجے میں ضیا الحق نے نہ صرف منتخب حکومت کو گھر بھجوا دیا بلکہ گیارہ سالہ طویل دور آمریت کی بنیاد بھی رکھ دی جس کا خمیازہ پاکستانی عوام آج دن تک بھگت رہے ہیں۔ آج بھی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے کیونکہ حکومت زور زبردستی سے اگلا الیکشن الیکٹرونک مشین کے ذریعے کروانے پر مصر ہے جبکہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ ایسا کرنا ممکن نہیں۔
اس حوالے سے سنیئر صحافی نصرت جاوید اپنے سیاسی تجزیے میں کہتے ہیں کہ تحریک انصاف حکومت ڈٹ گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کو واضح الفاظ میں بتادیا گیا ہے کہ اگر وہ الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے پولنگ کروانے پر آمادہ نہ ہوا تو اس کے فنڈز روک لئے جائیں گے۔ یہ فنڈ رک گئے تو الیکشن کمیشن کے اعلیٰ ترین حکام کے علاوہ نچلے درجے کے ملازمین کو تنخواہیں بھی نہیں مل پائیں گی۔ الیکشن کمیشن کے دفاتر بجلی وغیرہ کے بل ادا نہیں کر پائیں گے۔ بالآخر اس ادارے کو بند کرنا پڑے گا۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ قانون میرا شعبہ نہیں۔ تاہم 1985 سے پارلیمانی رپورٹنگ کرتے ہوئے مجھے آئین کی کافی شقیں یاد ہو چکی ہے۔ ان میں سے چند شقیں آسان ترین الفاظ میں سمجھا دیتی ہیں کہ الیکشن کمیشن ایک خود مختار اعر آزاد ادارہ ہے۔ وہ مختلف وزارتوں کی طرح حکومتی ہدایات پر ہر صورت عمل کرنے کا پابند نہیں۔ لیکن حکومت وقت نے اس کے ہاتھ باندھنے کے لئے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے زور زبردستی ایک قانون پاس کروالیا ہے۔ یہ قانون انتخابات کے دوران ووٹ کی پرچی پر مہر لگانے کے بجائے پولنگ اسٹیشنز میں رکھی الیکٹرانک مشینوں میں نصب بٹنوں پر انگلی رکھتے ہوئے ووٹ ڈالنے کا تقاضا کرتا ہے۔ اس قانون کی عجلت میں منظوری سے قبل اپوزیشن بنچوں پر بھاری بھر کم تعداد میں بیٹھی دونوں بڑی جماعتوں کے سربراہوں نے دھواں دھار تقاریر کیں۔ شہباز شریف اور بلاول بھٹو مصر رہے کہ ان کی مشاورت کے بغیرزبردستی منظور کیے اس قانون کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ بلاول نے یہ اعلان بھی کر دیا کہ مشینوں کے ذریعے ہوئے انتخاب کے نتائج کو وہ کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے۔ مریم نواز نے بھی کچھ ایسا ہی اعلان کیا۔ مگر حکومت ان دونوں کی اپوزیشن کو کسی خاطر میں نہیں لاتی۔
نصرت جاوید یاد دلاتے ہیں کہ جولائی 2018 میں جو الیکشن ہوئے تھے اس کی شفافیت بارے بھی اپوزیشن جماعتوں خاص طور پر مسلم لیگ ن نے بے تحاشا سوالات اٹھائے تھے۔ تب یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان کو جتوانے کے لئے آر ٹی ایس سسٹم کو بٹھا دیا گیا۔ بقول نصرت، اس واقعے کے بعد سیاسی منطق کا تقاضا تو یہ تھا کہ ن لیگ کے جو لوگ دھاندلی کے باوجود قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے منتخب ہو گئے تھے وہ اپنی رکنیت کا حلف اٹھانے سے انکار کر دیتے۔ مگر نواز لیگ یہ جرآت نہیں دکھا پائی اور سرجھکائے ایوان میں داخل ہو گئی۔ نصرت کی نظر میں اپوزیشن اراکین کی جانب سے رکنیت کا حلف اٹھانا اصولی طور پر 2018 کے انتخابی عمل کو تسلیم کرنے کے مترادف بھی تھا۔ اس کے علاوہ محض تقاریر ہیں، سیاپا فروشی ہے، اور کچھ نہیں، مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ رکنیت کے حلف اٹھانے کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے دو اہم ترین قوانین کو تاریخی عجلت میں پاس کروانے میں بھی حکومت کا دل وجان سے ساتھ دیا۔
نصرت جاوید یاد دلاتے ہیں کہ ان میں سے ایک قانون کے ذریعے فوجی سربراہ کو توسیع دی گئی تھی حالانکہ اس سے پہلے اسٹیبلشمنٹ پر الیکشن میں دھاندلی کروانے کا الزام لگایا جا رہا تھا۔ نصرت کہتے ہیں کہ ابھی میعاد ملازمت میں توسیع کو باقاعدہ بنانے والے قانون کا مسودہ بھی تیار نہیں ہوا تھا تو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے اس کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کر دیا جس نے پیپلز پارٹی کو حیران کر دیا۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے توسیع کے مسودہ قانون میں چند ترامیم متعارف کروانے کی کوشش بھی ہوئی۔ بلاول بھٹو ان ترامیم کے لئے بضد رہے تو ان کے والد سے رابطہ ہوا۔ اور پھر جس دن یہ قانون قومی اسمبلی سے پاس ہونا تھا اس روز پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین اپنے بیڈ روم سے باہر نہ نکلے۔ ان کی عدم موجودگی میں پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی نے حکومتی قانون 12 منٹ میں منظور کروانے کی سہولت فراہم کردی۔
میعاد ملازمت میں توسیع کو باقاعدہ بنانے والے قانون کے بعد پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلوانے کے لئے دس سے زیادہ قوانین بھی اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کی غلامانہ رضا مندی سے منظور ہوئے۔ جب یہ قوانین منظور ہو گئے تو وزیر اعظم نے اپوزیشن کے تعاون کا شکریہ ادا کرنے کے لئے ایوان میں کھڑے ہو کر دو جملے بھی نہیں کہے۔ ان کی خاموشی نے واضح پیغام دیا کہ قوانین کی منظوری کے لئے جمہوریت کی چمپئن بنی اپوزیشن جماعتوں نے درحقیقت ہماری ریاست کے اصل مالکوں کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے، لہٰذا عمران خان کے لئے اپوزیشن جماعتوں کا شکریہ ادا کرنا واجب نہیں۔
نصرت کہتے ہیں کہ طاقت ور اداروں کی خوشنودی کی طلب گار اپوزیشن جماعتوں کو ٹھوس وجوہات کی بنا پر خان صاحب کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ جو جماعت لاہور سے حامیوں کے جتھے لے کر اسلام آباد پر یلغار کرنے کا ارادہ باندھ لے یہ حکومت فقط اس کے آگے جھکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کسی سے بھی نہیں
نصرت کہتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کے فدویانہ چلن کو ذہن میں رکھتے ہوئے کپتان حکومت کو یقین ہے کہ بالآخر وہ الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے ہوئے انتخاب کو بھی تسلیم کرنے پر آمادہ ہوجائیں گی۔ لیکن میں پھر بھی وطن عزیز کی تاریخ کا طالب علم ہوتے ہوئے محسوس کر رہا ہوں کہ اگر یہ حکومت اپنی ضد پر اڑی رہی تو آئندہ انتخابات مارچ 1977 کی تاریخ ہی دہرائیں گے۔