شہباز گل اپنی فرعونیت کی وجہ سے تنقید کی زد میں


اسلام آباد کی دو جامعات سے جنسی ہراسانی کے الزامات پر فارغ ہونے کے بعد وزیر اعظم کے معاون خصوصی لگ جانے والے بد زبان شہباز گل ایک مرتبہ پھر صحافیوں کی جانب سے شدید تنقید کی زد میں آ گئے ہیں۔
شہباز گل نے حال ہی میں اے آر وائی نیوز کے ایک پروگرام میں اینکر کاشف عباسی کو اپنے فرعونی لہجے میں باور کروایا کہ جلد ہی حکومتی نمائندوں کے مد مقابل ٹاک شوز میں بٹھائے جانے والے اپوزیشن اراکین ان کی مرضی سے بلائے جایا کریں گے اور اس سلسلے میں کام جاری ہے۔ نیشنل پریس کلب اسلام آباد، کراچی پریس کلب اور لاہور پریس کلب سمیت ملک بھر کے دیگر بڑے شہروں کے پریس کلبز اور صحافتی تنظیموں نے شہباز گل کے اس فرعونی بیان کی مذمت کی ہے اور اسکے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا یے۔ اس تنقید کا سلسلہ تب شروع ہوا جب شہباز نے ’اے آر وائی‘ پر میزبان کاشف عباسی کے پروگرام ’آف دی ریکارڈ‘ میں کہا: ’یہ زیادتی کی بات ہوتی ہے کہ پروگرام میں اپوزیشن پارٹیز سے کوئی ماہر معاشیات آ جائے جیسے مفتاح اسماعیل یا زبیر عمر اور پی ٹی آئی سے کسی وکیل یا کسی سماجی علوم کے ماہر کو بلا لیا جاتا ہے جو کہ فئیر پلے نہیں ہے۔‘ بظاہر شہباز گل نے پروگرام میں اپنی پارٹی ’پالیسی‘ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پروگرامز میں مہمان ان کی ’مرضی‘ سے بھیجے جائیں گے۔ اس پر اینکر کاشف عباسی نے کہا کہ پھر تو ہمارے پروگرام کے موضوع، مواد اور مہمانوں کا فیصلہ بھی آپ ہی کر لیا کریں۔ اس پر شہباز گل نے فرعونی لہجے میں کہا: ’ہم آہستہ آہستہ یہ بھی کر رہے ہیں۔‘ اس کے ردعمل میں کاشف عباسی نے کہا کہ ’پھر تو آپ اپنا چینل بھی قائم کر لیں جیسا کہ آپ کر رہے ہیں جس میں سب کچھ آپ کی مرضی کا ہو۔‘
اس گفتگو پر ردعمل کے طور پر پاکستان کے تین بڑے شہروں کے پریس کلبز اور صحافتی تنظیموں نے مذمت بیانات جاری کیے ہیں۔ لاہور اور کراچی پریس کلب کے عہدیداران کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ہم شہباز گل کی جانب سے حالات حاضرہ کے ٹاک شوز پر اثر انداز ہونے، ٹیلی ویژن چینلز پر اپنی مرضی کے پروگرام چلوانے اور حکومتی منشا کے مطابق ان میں مہمانوں کو بلانے کے عزائم کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ حکومت کس قانون کے تحت کرنٹ افیئرز پروگرامز کے لیے موضوع اور مہمانوں کا تعین خود کر سکتی ہے اور ایسا اعلان آزادی صحافت اور صحافیوں پر حملہ کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
لاہور اور کراچی پریس کلب کے صدور کے مطابق شہباز گل کے خیالات حکومت کی فاشسٹ پالیسی کے آئینہ دار ہیں۔ ویسے بھی بربولے شہباز کی عادت ہے کہ اس سے کوئی سوال کیا جائے تو بدتمیزی کرتے ہیں۔ انہوں نے پچھلے مہینے نیویارک میں بھی سینیئر صحافی عظیم میاں سے بدتمیزی کی رھی جس پر نیویارک کے صحافیوں نے ان کی تقریبات کا بائیکاٹ کیا تھا۔‘
شہباز گل کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے لاہور اور اسلام آباد پریس کلب کے عہدیداران کا کہنا ہے لہ ’سیدھی سی بات ہے اگر آپ نے کسی کے سوال کا جواب نہیں دینا تو آپ بتا دیں کہ آپ جواب نہیں دینا چاہتے، نہ کہ جواب میں آپ یہ کہیں کہ میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں یا میں دیکھ لوں گا کہ تم نوکری کیسے کرتے ہو۔‘انکا کہنا تھا کہ ’ٹاک شوز کو ریگولیٹ کرنے کی بات کرکے تو شہباز گل نے حد ہی کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں آمریت کے انتہائی خوفناک ادوار رہے لیکن ان ادوار میں بھی صحافیوں کے ساتھ وہ کچھ نہیں ہوا جو اس دور حکومت میں ہو رہا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ااگر شہباز گل نے اپنی روش تبدیل نہ کی اور ہمیں دبانے کی مذید کوشش کی تو پھر ہم دبیں گے نہیں بلکہ اور ابھریں گے۔ ہم صرف پنجاب میں نہیں بلکہ قومی اسمبلی، سینٹ اور دیگر اسمبلیز کی کوریج کا بائیکاٹ کریں گے اور شہباز گل کو پریس کانفرنس بھی نہیں کرنے دیں گے۔ ہم نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شہباز گل کو عہدے سے برطرف کریں۔‘
سوشل میڈیا پر بھی کچھ سینیئر صحافی شہباز گل کے رویے کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔ حامد میر نے ٹویٹ میں لکھا: ’لاہور، کراچی، پشاور اور نیشنل پریس کلب اسلام آباد کی جانب سے شہباز گل کے خلاف مذمتی بیانات حکومت اور صحافیوں کے تعلقات کی نوعیت پر سنجیدہ سوالات اٹھا رہے ہیں۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو چاہیے کہ معاملے کو مزید بگڑنے سے بچائیں اور غلط فہمیاں دور کروائیں۔‘ انھوں نے مزید لکھا کہ لاہور، کراچی، پشاور اور اسلام آباد کے بعد کوئٹہ پریس کلب نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ کرنٹ افئیرز شوز میں حکومت کی مبینہ مداخلت قبول نہیں کی جائے گی اب شہباز گل کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد یا لاہور پریس کلب میں صحافیوں کے منتخب نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر وضاحت کرنی چاہئیے۔
صحافی مطیع اللہ جان نے مذمتی بیانات کے ہمراہ ٹویٹ کی اور لکھا کہ پی ٹی آئی کی سنسر شپ پالیسی تھیلے سے باہر آ گئی ہے۔ معاون خصوصی شہباز گل نے اپنے خلاف صحافیوں کے مذمتی بیانات کے تناظر میں اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹویٹ کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ ‘لاہور اور اسلام آباد کے پریس کلبز جو بات میں نے کی بھی نہیں اس پر میری مذمت کر رہے ہیں۔‘ انہوں نے مزید لکھا کہ ’مین نے صرف اتنا کہا ہے کہ ہر جماعت کو اپنا ترجمان منتخب کرنے اور ٹی وی پر بھیجنے کا اختیار ہے- یہ جھوٹا افسانہ کہاں سے آگیا کہ حکومت کی مرضی کے پروگرام ہوں گے؟
یاد رہے کہ شہباز گل ماضی میں خواتین طالبات کو ہراساں کرنے کے الزام میں اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی اور انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے بطور لیکچرار فارغ کر دیے گے تھے۔

Back to top button