کیا پیپلز پارٹی الیکشن میں بڑا سرپرائز دے سکتی ہے؟

پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب سے تیس نشستیں جیتنے کی دعوے دار ہے تاہم پندرہ نشستیں بھی جیت لے تو چاروں صوبوں کے قلیل تناسب کے باوجود وفاق میں حکومت بنانے کی دوڑ میں آ سکتی ہے اور پھر ’آزاد‘ اراکین اسمبلی کا آسرا تو ہے ہی۔انتخابات کے بعد آزاد منڈیوں میں لگائی جانے والی بولیاں کس کے ہاتھ ہوں گی اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ سب نظریں اب آزاد امیدواروں پر ہیں جو نجانے جیتنے کے بعد آزاد رہیں گے بھی یا نہیں۔ ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی اور کالم نگار عاصمہ شیرازی نے اپنے ایک کالم میں کیا ھے ۔ وہ لکھتی ہیں کہ انتخابات کی چہل پہل میں پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین انتخابات کو نسبتاً سنجیدہ لیتے ہوئے انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور پیپلز پارٹی نے اپنے ڈیرے پنجاب میں جما دیے ہیں۔ سندھ کی اکسٹھ سیٹوں پر دو تہائی اکثریت کا دعویٰ کرتی پیپلز پارٹی بہرحال چاروں صوبوں میں انتخابی مہم چلاتی ہوئی لاہور پہنچی ہے اس اُمید کے ساتھ کہ ن لیگ مخالف ووٹ تحریک انصاف کی عدم موجودگی میں اُن کی جھولی میں گرے گا۔ نون لیگ نے انتخابی مہم دیر سے شروع کی، وجہ ضرورت سے زیادہ اعتماد ہے یا ’تکنیکی‘ بنیادوں پر حلقہ بندیوں سے لے کر بلے کے آؤٹ ہونے تک کا غیر متزلزل یقین۔ باوجود اس کے کہ ن لیگ مقابلے کی فضا میں بھرپور لڑائی لڑ سکتی تھی اور ان کا ووٹر بھی اپنی جگہ موجود تھا پھر بھی انتخابی مہم میں ’غیر سنجیدگی‘ سمجھ سے بالاتر ہے۔
عاصمہ شیرازی کے مطابق مسلم لیگ نون کی یہ واحد انتخابی مہم ہے جس کا آغاز تاخیر سے ہوا اور منشور کا انتظار اب بھی باقی ہے جبکہ بیانیہ ’ووٹ کو عزت دو‘ سے ہوتا ہوا واپس ’مجھے کیوں نکالا‘ پر آ کھڑا ہوا ہے۔ ن لیگ کے پاس نواز شریف کے علاوہ مریم نواز اور شہباز شریف بھی موجود ہیں تو انتخابی مہم میں ’وقت کا ضیاع‘ کیوں کیا گیا؟ ن لیگ پنجاب کی سو نشستوں کی دعوے دار ہے تاہم سوال یہ ھے کہ ملک بھر سے یہ ہدف حاصل ہو گا یا ان کا آخری آسرا بھی ’آزاد‘ اراکین ہی ہوں گے۔ تحریک انصاف کے ’آزاد امیدوار‘ کے لئے ’ہم کوئی آزاد ہیں‘ کا نیا نعرہ جیل سے لگ چکا ہے اور ’غلامی منظور ہی منظور‘ کی کوششیں جاری ہیں۔انتخابات میں سترہ دن باقی ہیں اور تحریک انصاف کے ’پلان سی‘ کی بازگشت ہے۔ عمران سیریز میں ’لندن پلان‘ کے بعد اب پلان سی کی آوازیں آ رہی ہیں لیکن تا حال نہیں معلوم کہ تحریک انصاف کا ’پلان اے‘ کیا تھا۔
عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ ان انتخابات میں تحریک انصاف کی پوزیشن گزشتہ انتخابات میں ن لیگ جیسی ہے اور نہیں معلوم کہ آئندہ انتخابات میں کونسی جماعت کی پوزیشن آج کی تحریک انصاف جیسی ہو گی۔ ایک بات طے ہے کہ اٹھارہ میں ایک جماعت کو جتوانے کا زور تھا تو اب اُسی کو ہروانے کا۔
سیاست کے نجومی بخوبی اندازہ لگا رہے ہیں کہ اب کی بار اقتدار کا سورج کس گھر میں ہو گا البتہ منظورِ نظر جماعتوں میں انصاف سے کام لیے جانے کی توقع اور تحریک انصاف کے علاوہ جیتنے والوں میں ترازو کا پلڑا برابر رکھے جانے کا امکان ہے۔ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات سے قبل بھر پور یقین سے کہا جا رہا تھا کہ آنے والی حکومت پاکستان تحریک انصاف کی ہی ہو گی اور اس یقین کے پیچھے وہ پُراعتماد ذرائع تھے جو انتخابات سے قبل جوڑ توڑ، بازو مروڑ اور نیب عیب کاروائیاں کروا کر اُس وقت کی مقبول جماعت یعنی ن لیگ کو ہروانے کا ’میچ فکس‘ کر بیٹھے تھے جبکہ جو کمی رہ گئی تھی اُسے آر ٹی ایس بٹھا کر پورا کر لیا گیا۔
عاصمہ شیرازی بتاتی ہیں کہ آج واضح اکثریت کے بغیر حکومت قبول کرنے پر عمران خان پچھتا رہے ہیں اور تاسف کی اس لہر میں اُن کی یاداشت سے بظاہر یہ حقائق فراموش ہیں کہ اُنھیں کس طرح کامیابی دلانے کے لیے ’سسٹم‘ کو ہی بٹھا دیا گیا تھا۔
دو ہزار تیرہ کے واقعات بھی یاد کرانے کی ضرورت ہے جب بریگیڈیئر رانجھا کا نام لے کر عمران خان نے اُس وقت انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا۔ اُس سے تھوڑا پیچھے چلیں جائیں دو ہزار آٹھ کے انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی شکوہ کُناں رہی کہ اُنھیں پنجاب میں ’مینوفیکچرڈ شکست‘ سے دوچار کیا گیا۔ بہر حال جتنا پیچھے چلتے چلے جائیں گے اُتنا ہی ماضی آئینہ دکھاتا چلا جائے گا۔دو ہزار چوبیس بھلا کیوں مختلف ہو گا۔ کہنے کو بہت کچھ ہے اور امتحان سے پہلے نتیجے کی جھلکیاں موجود ہیں۔