کیا FATF نے پاکستان کو انڈیا سے دوستی پر مجبور کیا ہے؟

کیا پاکستان نے بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں سے بچنےکے لیے بڑھایا ہے۔ یہ سوال تب پیدا ہوا جب حال ہی میں پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے دونوں ملکوں کو تلخ ماضی بھلا کر آگے بڑھنے کا مشورہ دیا۔ فوجی سربراہ کے اس بیان پر رد عمل دیتے ہوئے بھارتی آرمی چیف جنرل منوج مکند نراونے نے کہا ہے کہ پاکستان نے ایسا ’ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں کی لٹکتی تلوار’ اور ملک کے اندرونی حالات کے باعث مجبور ہوکر کیا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ اتنے برسوں کے دوران پاکستان کو یہ محسوس ہوا ہے کہ اب اسے اپنی پرانی حکمت عملی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اور اسی وجہ نے اس نے لائن آف کنٹرول پر بھی سیز فائر کیا ہے۔
بھارتی بری فوج کے سربراہ نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کو دہشتگردی اور دہشتگردوں کی حمایت کرنا چھوڑنا ہوگی اور جب تک وہ ایسا نہیں کرتے معاملات معمول پر نہیں آ سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے پاکستان میں جن جن دہشت گردی کے مراکز کی نشاندہی کی تھی وہ اب بھی کام کر رہے ہیں اور بھارت کے پاس اس کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں لہذا ان کے خاتمے کے بغیر دونوں ملکوں کے تعلقات بحال نہیں ہو سکتے۔
یاد رہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان گزشتہ چند برسوں میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور تناؤ کے بعد اب دونوں کے تعلقات میں سردمہری کی برف پگھلنے کے امکانات دکھائی دے رہے ہیں، اسی تناظر میں انڈیا کی برّی فوج کے سربراہ جنرل منوج مکند نراونے کا بیان سامنے آیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی چیز کے نتائج نہیں مل رہے تو ایسا نہیں ہے کہ ایک ہی کام یا حکمت عملی بار بار دہراتے رہیں اور مختلف نتائج کی توقع کریں۔ گزشتہ ماہ دونوں ملکوں کی جانب سے سیزفائر معاہدے پر اتفاق کرنے کے حوالے سے کیے گئے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ایک ہی حکمت عملی بار بار دہرا کر مختلف نتائج کی توقع درست نہیں ہے اور مختلف حکمت عملی اپنا کر کوشش کرتے رہنا چاہیے۔
یاد رہے کہ دونوں ممالک کی فوج کے ڈی جی ایم اوز کی جانب سے 25 فروری کو سیز فائر کے مشترکہ اعلامیہ جس کے مطابق سنہ 2003 کے سیز فائر کے معاہدے کی تحت جنگ بندی ہوگئی۔ اس بارے میں انڈین آرمی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ معاہدے کے بعد گزشتہ پانچ چھ برسوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ لائن آف کنٹرول پر خاموشی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ اس معاہدے کے بعد سے اب تک لائن آف کنٹرول پر ایک گولی بھی نہیں چلی ہے۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ایک حالیہ بیان، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ دونوں ملکوں کو ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنا ہوگا، کے بارے میں مزید بات کرتے ہوئے جنرل منوج نے کہا کہ کافی عرصے سے سرحد پار سے کوئی فائرنگ نہیں ہوئی نہ ہی سرحد پر دخل اندازی کی کوئی کوشش کی گئی ہے۔ اس کا مطلب سرحد پار سے دخل اندازی کی کوئی کوشش نہیں ہے اور یہی ایک بڑی وجہ ہے مستقبل میں اس معاہدے کی پاسداری پر پرامید رہنے کی۔
واضح رہے کہ اس سال فروری میں پاکستان اور انڈیا کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز نے ایک دوسرے کے بنیادی معاملات اور تحفظات کو دور کرنے اور ایل او سی پر جنگ بندی پر سختی سے عمل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ پیشرفت ایک ایسے موقع پر ہوئی جب رواں برس فروری میں انڈین فضائیہ کے طیاروں کی پاکستان کے شمالی علاقے بالاکوٹ میں حملے کی کوشش کو دو برس ہوگئے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کی خلاف ورزیوں کے واقعات وقتاً فوقتاً پیش آتے رہتے ہیں اور دونوں ممالک سرحدی سیز فائر کی خلاف ورزی کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔
اس سوال پر کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہے کیا، جنرل منوج مکند نراونے کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک ایک طویل عرصے سے سرحد کے پار اس سلسلے میں بات چیت کر رہے تھے لیکن بدقسمتی سے اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل رہا تھا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ایسا مجبوری کے تحت کیا ہے۔ میرے خیال میں ان کے اپنے چند اندرونی مسائل تھے اور وقت کے ساتھ ساتھ آپ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ آپ جو حکمت عملی استعمال کر رہے ہیں اس کا کوئی فائدہ بھی ہے یا نہیں۔ اتنے برسوں کے دوران پاکستان کو یہ محسوس ہوا ہے کہ اب اس حکمت عملی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اور اسی وجہ نے انہیں سرحد پر سیز فائر کےلیے قدم بڑھانے پر مجبور کیا ہے۔
تاہم جنرل منوج نے دعوی کیا کہ پاکستان میں اب بھی دہشت گردوں کے نیٹ ورک اور لانچ پیڈ موجود ہیں۔ انہون نے کہا کہ دہشت گرد آج بھی وہاں موجود ہیں اور اس میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ اس وقت یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ معاہدہ قائم رہے گا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان نے یہ معاہدہ مجبوری کے تحت کیا ہے تو انہوں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایسا بالکل ممکن ہے لیکن اس کےلیے ہمیں تحمل سے جائزہ لینا ہوگا۔ جب برف پگھلے گی، اور راستے کھلیں گے اور اگر پھر صورت حال ایسے ہی پر امن رہتی ہے تو یہ مستقبل کےلیے خوش آئند ہے لیکن اس کےلیے ہمیں انتظار کرنا ہوگا۔
اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے انڈین فوج کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان افغانستان کی صورت حال، ‘ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں کی لٹکتی تلوار’ اور ملک کے اندرونی حالات کے باعث مجبور ہے۔
دونوں ممالک کے مابین پیش رفت اور دیگر شعبوں میں ہونے والے مذاکرات پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کی افواج کے ڈی جی ایم اوز کے درمیان ہونے والا معاہدہ صرف عسکری سطح پر ہے اور ہم نے ان سے دیگر معاملات پر کوئی بات نہیں کی ہے۔ ان کے بنیادی مسائل کیا ہیں، میں اس پر بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں لیکن جہاں تک ہمارے بنیادی نکات کی بات ہے تو وہ یہ ہیں کہ انہیں دہشتگردی اور دہشتگردوں کی حمایت کرنا چھوڑنا ہوگی اور جب تک وہ ایسا نہیں کرتے معاملات معمول پر نہیں آ سکتے۔ جنرل منوج مکند نراونے نے دعوی کیا کہ انڈیا نے پاکستان میں دہست گردی کے جن مراکز کی نشاندہی کی ہے وہ اب بھی قائم ہیں اور انڈین فوج کے پاس ان کی تفصیلی معلومات ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے پاس ان مراکز کی تمام تفصیلی خفیہ معلومات ہیں۔ ان کیپموں کی لوکیشن، وہاں موجود افراد کی ممکنہ تعداد، وہاں دہشتگردی کی تربیت حاصل کرنے والے افراد کی تفصیلات۔ اسی لیے میں نے آپ سے کہا ہےکہ ہمیں ان پر نظر رکھنا اور انتظار کرنا ہوگا۔
معاہدے کی پاسداری کرنے پر پاکستان کی سنجیدگی کے بارے میں سوال پر جنرل منوج مکند نراونے کہتے ہیں کہ پاکستان کو سیز فائر معاہدے کی پاسداری کرنا ہوگی، اپنے ملک میں موجود دہشتگردی کے کیپموں کو ختم کرنے کے اقدامات کرنے ہوں گے جو کہ انڈیا کا بنیادی مطالبہ ہے اور ڈرونز کے ذریعے لائن آف کنٹرول کے علاقے اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں گولہ بارود پھینکنے کو بھی روکنا ہوگا۔