ہراسانی کا شکار ہونے والے لڑکا اور لڑکی بکری کیوں ہو گئے؟

https://youtu.be/fK-ZTX85KIs
اسلام آباد میں عثمان مرزا نامی بدقماش شخص کے ہاتھوں ہراسانی کا شکار ہونے والے لڑکے اور لڑکی کی جانب سے اپنے الزامات سے منحرف ہونے اور ملزموں کی شناخت نہ کرنے کا ذمہ دار پاکستان کے عدالتی نظام کو قرار دیا جا رہا ہے، مدعی لڑکا لڑکی کی جانب سے ویڈیو میں موجود ہونے سے انکار اور کیس سے قطع تعلقی کے اعلان کے بعد عدالتی نظام شدید تنقید کی زد میں ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پہلے جس جج نے ہراساں ہونے والے جوڑے کی عریاں ویڈیو درست قرار دے کر ملزموں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا تھا اب وہ کس طرح ملزموں کو بے قصور قرار دے سکتا ہے؟ دوسری جانب حکومتی ذرائع نے اپنے بیان سے منحرف ہونے پر جوڑے کے خلاف قانونی کارروائی کا عندیہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اگر لڑکا اور لڑکی اس کیس کو آگے چلانے پر راضی نہ ہوئے تو حکومت خود مدعی بن جائے گی۔
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں سیکٹر ای 11 میں لڑکے اور لڑکی پر ہونے والے تشدد کے کیس کی سماعت کے دوران متاثرہ جوڑے کو پیش کیا گیا تو متاثرہ لڑکی نے کہا کہ ہم نے جو بیان دینا تھا دے دیا، ہمیں بار بار کیوں پریشرائز کیا جا رہا ہے، میں کہہ چکی ہوں کہ ملزموں میں سے کسی کو نہیں جانتی۔ اس موقع پر متاثرہ لڑکے نے کہا کہ اس نے 8 جولائی 2021 کو کوئی بیان ریکارڈ نہیں کرایا تھا اور یہ کہ پولیس نے سادہ کاغذ پر اس سے دستخط لیے تھے، ملزم عمر بلال کے وکیل شیر افضل نے کہا کہ جوڑے کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے میں عدالت سے استدعا کرتا ہوں کہ انکی وائرل ہونے والی ویڈیو چلائی جائے، میں ویڈیو کا صرف ایک حصہ چلوانا چاہتا ہوں۔ چنانچہ جج نے سب کو کمرہ عدالت سے باہر نکلنے کا حکم دے دیا، اس کے بعد بند کمرے میں ویڈیو چلائی گئی، وکیل نے متاثرہ لڑکی پر جرح کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا آپ نے عدالت میں بیان دینے کے لیے عمر بلال سے ایک لاکھ روپے وصول کیے؟ لڑکی نے جواب دیا کہ نہیں میں نے کسی سے کوئی پیسے نہیں لیے، پہلے بھی بتا چکی ہوں کہ پولیس نے مجھ سے سفید کاغذ پر دستخط کرائے اور انگوٹھا لگوایا تھا، اس نے بتایا کہ اب میرا نکاح متاثرہ لڑکے سے ہو چکا ہے جس کی مجھے تاریخ یاد نہیں، اس نے بتایا کہ یہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد میرا اور لڑکے کا نکاح ہوا تھا۔ لڑکی نے بتایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ ایف آئی اے کے ماہرین نے وائرل ویڈیو کو اصل قرار دیا تھا، اس نے کہا کہ میری آئی جی اسلام آباد ہائی کسی اور پولیس افسر سے بھی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔
اس پر ملزم عمر بلال کے وکیل شیر افضل ایڈووکیٹ نے کہا کہ خاتون نے عدالت کے سامنے جھوٹ بولنے کا اقرار کیا ہے۔ استدعا ہے کہ متاثرہ لڑکے لڑکی کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے، ملزم عمر بلال کے وکیل نے یہ بھی کہا کہ ایف آئی اے کا عملہ کہتا ہے کہ ویڈیو میں آواز اور موجودگی آپ کی ہے۔
لڑکے کے بیان پر پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے جرح کی جس کے جواب میں متاثرہ لڑکے نے بتایا کہ میری تعلیم انٹر میڈیٹ ہے اور میں کوئی کام نہیں کرتا، جب یہ واقعہ ہوا میں پراپرٹی کا کام کرتا تھا، جب یہ کیس شروع ہوا میں نے پراپرٹی کا کام چھوڑ دیا۔ لڑکے نے بتایا کہ مقدمے کے اندراج کے بعد وہ تھانہ گولڑہ میں 4 سے 5 دفعہ گیا تھا، لیکن 8 جولائی 2021 کو میں نے کوئی بیان ریکارڈ نہیں کرایا، پولیس نے سادہ کاغذ پر میرے دستخط لیے تھے، پراسیکیوٹر نے سوال کیا کہ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس دن کیا ہوا تھا؟ لڑکے نے جواب دیا کہ ابھی میں اس واقعے کی تفصیل نہیں بتا سکتا۔
تاہم دوسری جانب یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس کیس کے مرکزی ملزم عثمان مرزا کے ساتھیوں نے متاثرہ جوڑے کو ڈرا دھمکا کر کچھ پیسوں کے عوض اس کیس سے منحرف ہونے پر آمادہ کیا ہے جو کہ پاکستان کے عدالتی نظام کی ناکامی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ جب تک طاقتور ملزموں کے خلاف کمزور متاثرین کو ریاستی تحفظ فراہم نہیں کیا جائے گا، لوگ یونہی منحرف ہوتے رہیں گے۔

Back to top button