آرٹیکل 5 کی آڑ میں واردات ڈالنے والے آرٹیکل 6 بھول گئے


قائم مقام سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد کو مسترد کرنے کی واردات آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت ڈالی ہے جس کے مطابق ریاست سے وفاداری ہر شہری کا فرض ہے۔ انھوں نے کہا کہ چونکہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد ایک غیر ملکی سازش ہے لہٰذا اس تحریک کو مسترد کیا جاتا ہے۔ تاہم ایسا کرتے ہوئے سپیکر قومی اسمبلی آرٹیکل 6 کو بھلا بیٹھے جو آئین کی خلاف ورزی کرنے والے کو غداری کا مرتکب قرار دیتا ہے اور آئین شکنی کرنے والے کے لئے سزائے موت تجویز کرتا ہے۔ اسپیکر کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے، وزیراعظم کی جانب سے اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دینے اور صدر علوی کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے تینوں اقدامات آئینی ماہرین کی جانب سے غیر قانونی قرار دیے جانے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کے اقدامات میں ملوث کے عمران، علوی اور احسن بھون غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ تین مارچ کے روز جب وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے اجلاس شروع ہوا تو ایکٹنگ سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے وفاقی وزیر فواد چوہدری کو فلور دے دیا۔ موصوف نے نکتہ اٹھایا کہ ’یہ عدم اعتماد کا نہیں بلکہ آئین کے آرٹیکل 5  کا معاملہ ہے جس کے تحت ریاست سے وفاداری ہر شہری کا فرض ہے اور اس تحریک کے ذریعے بیرونی قوتوں کی منشاء پر حکومت  بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن فواد چوہدری کی یہ منطق تھوڑی دیر بعد ہی غلط ثابت ہوگئی جب وزیراعظم عمران خان نے خود ہی اسمبلی توڑ دی اور بیرونی طاقتوں کا نام نہاد ایجنڈا پورا کردیا۔
فواد چوہدری نے ڈپٹی سپیکر سے طے شدہ سوال کیا کہ کیا اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی تحریک آئین کے آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی ہے یا نہیں ہے؟ ساتھ ہی انہوں نے مطالبہ کیا کہ آرٹیکل 5 اے پر رولنگ آنی چاہییے۔ اس کے فوری بعد ڈپٹی سپیکر نے طوطے کی طرح کاغذ پر لکھی رولنگ پڑھتے ہوئے فواد چوہدری کی رائے کو تسلیم کر لیا اور تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کا اعلان کر دیا۔
یاد رہے کہ آئین کے آرٹیکل 5 میں بنیادی طور پر دو شقیں ہیں۔ اس کی پہلی شق کے مطابق مملکت سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے جب کہ دوسری شق میں لکھا ہے کہ دستور اور قانون کی اطاعت ہر شہری خواہ وہ کہیں بھی ہو، واجب التعمیل ذمے داری ہے۔
تاہم ایکٹنگ سپیکر قومی اسمبلی کی اس واردات کے بعد ازاں اپوزیشن جماعتوں نے اپنا اجلاس جاری رکھا اور ایوان میں عمران خان کے خلاف 195 ممبران قومی اسمبلی کی اکثریت ثابت کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کا اعلان کر دیا۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے عدالتی کارروائی شروع کر دی یے۔ قومی اسمبلی میں ہونے والی اس کارروائی کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 5 میں ایسا کیا ہے جس کا سہارا لے کر حکومت تحریک عدم اعتماد سے بچ گئی؟ دراصل آئین میں درج اس آرٹیکل کا عنوان ہے ’ریاست سے وفاداری اور آئین اور قانون کی فرمانبرداری۔‘
اس آرٹیکل کی شق نمبر ایک کہتی ہے کہ ’ریاست سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہے۔‘ شق نمبر دو کے مطابق آئین اور قانون کی فرمانبرداری ہر شہری کی نہ ختم ہونے والی ذمہ داری ہے چاہے وہ جہاں بھی ہو اور ہر دوسرے شخص کی جو وقتی طور پر پاکستان میں ہو۔‘
معروف قانون دان حامد خان ایڈووکیٹ کے مطابق آرٹیکل 5 تمام شہریوں کی آئین اور ریاست سے وفاداری یقینی بناتا ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ ’حکومت نے اس آرٹیکل کو غلط مقصد کے لیے استعمال کیا ہے اور آئین شکنی کی ہے۔ ان کے بقول تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر آرٹیکل 5 کا استعمال ایک سنگین مذاق کے مترادف ہے اور قوم اس حرکت پر ہنس رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’کیسے ثابت ہوتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کو ووٹ دینے والے تمام اراکیں آئین سے غداری کے مرتکب ہوئے ہیں؟ یہ بالکل غیر متعلق بات ہے۔ یہ کھلواڑ ہوا ہے۔ استرے تو مستقبل میں کبھی بھی کسی بھی وزیر اعظم کےخلاف کوئی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوگی اور وہ سپیکر کے ذریعے ایوان کو ہائی جیک کر لے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف سپیکر کی رولنگ غیر آئینی تھی بلکہ وزیر اعظم کی جانب سے صدر کو قومی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس بھی غیر آئینی تھی اور پھر صدر علوی کی جانب سے اسمبلی توڑنے کا اقدام بھی غیر آئینی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرتے ہوئے شائد تینوں حضرات آئین کے آرٹیکل 6 کو بھول گئے جس کے تحت ان پر آئین شکنی کا کیس بنتا ہے جو غداری کے زمرے میں آتا ہے اور اس کی سزا موت ہے۔
یاد رہے پہ آرٹیکل 6 کی شق 1 میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص جو طاقت کے استعمال یا طاقت سے یا دیگر غیر آئینی ذریعے سے دستور کی تنسیخ کرے، تخریب کرے یا معطل کرے یا التواء میں رکھے یا اقدام کرے یا تنسیخ کرنے کی سازش کرے یا تخریب کرے یا معطل یا التواء میں رکھے، سنگین غداری کا مجرم ہوگا۔ آرٹیکل 6 کی شق 2 میں کہا گیا ہے کہ کوئی شخص جو آئین شکنی میں مدد دے گا یا معاونت کرے گا، یا شریک ہو گا، وہ بھی سنگین غداری کا مجرم ہو گا۔ پھر کہا گیا ہے کہ شق1 یا شق 2 میں درج شدہ سنگین غداری کا عمل کسی بھی عدالت کے ذریعے بشمول عدالتِ عظمیٰ اور عدالتِ عالیہ جائز قرار نہیں دیا جائے گا۔ اس آرٹیکل کی شق 3 میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ بذریعہ قانون ایسے اشخاص کے لیے سزا مقرر کرے گی جنہیں سنگین غداری کا مجرم قرار دیا گیا ہو۔ تاہم یہ معاملہ اب سپریم کورٹ آف پاکستان میں جانے کے بعد عدالت نے فیصلہ کرنا ہے کہ کیا وزیر اعظم عمران خان، صدر عارف علوی اور ایکٹنگ سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے آئین شکنی کی ہے یا نہیں؟

Back to top button