ایدھی سینٹر کے 16000 بچوں کی نئی ماں صبا کون ہے؟

مولانا عبدالستار ایدھی کی بیوہ بلقیس ایدھی کی وفات کے بعد دوبارہ یتیم ہوجانے والے سولہ ہزار سے زائد بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال کی ذمہ داری ان کی بہو صبا ایدھی نے سنبھال لی ہے۔ فیصل ایدھی کی اہلیہ صبا ایدھی کو ایدھی سینٹر میں خواتین اور بچوں کے مراکز کا انچارج بنا دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ بلقیس ایدھی کو 16000 بچے اپنی ماں کا درجہ دیتے تھے۔ یہ سب وہ بچے ہیں جنھیں ان کے اپنے کوڑے کے ڈھیر یا ایدھی کے جھولے میں چھوڑ گئے تھے۔

یہ بچے، بچیاں اور حتیٰ کہ ایدھی سٹاف بھی بلقیس ایدھی کو ’’ممی‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا تھا، بلقیس ایدھی کہا کرتی تھیں کہ جب یہ بچے مجھے ماں کہہ کر پکارتے ہیں تو دل بڑا ہو جاتا ہے مگر اب یہ بچے اپنی ممی سے محروم ہوگئے ہیں۔ صبا ایدھی بتاتی ہیں کہ بلقیس ایدھی کے گزر جانے کے بعد اس سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے یہ ذمہ داری انھیں سونپی گئی ہے، ان کے ساتھ ان کی بیٹی اور بلقیس ایدھی کی ’’لاڈلی پوتی‘‘رابعہ ایدھی معاونت کریں گی۔ایدھی فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر رابعہ فیصل ایدھی نے اپنی دادی کے کپڑے پہن کر اس عزم کا اعادہ کیا کہ ان کے عظیم مشن کو جی جان سے جاری رکھا جائے گا، انہوں نے کہا کہ بلقیس ایدھی، ڈاکٹر رابعہ ایدھی کی صورت میں زندہ ہیں، انکی جلائی ہوئی مشعل جلتی رہے گی، روشنی بڑھتی رہے گی اور قافلہ چلتا رہے گا۔

یاد رہے کہ بلقیس ایدھی کی صاحبزادی رابعہ ایدھی اس وقت میڈیکل کالج کے چوتھے سال کی طالبعلم ہیں، وہ اپنی پڑھائی کے ساتھ ایدھی ہسپتال میں خدمات دیتی ہیں اور مراکز کو سنبھالنے میں ان کا ایک اہم کردار ہے، ہر سال عید کے موقع پر دادی بلقیس ایدھی خود ان کے لیے کپڑے لاتی تھیں، خریداری کے دوران وہ خیال کرتی تھیں کہ کپڑے بالکل سادہ ہوں، ویسے ہی کپڑے ہوں جیسے وہ اپنی دیگر بیٹیوں اور بیٹوں کے لیے لاتی تھیں، کچھ بھی فرق روا نہیں رکھتی تھیں۔
صبا ایدھی نے دیکھا کہ ان کے سامنے بلقیس ایدھی نے ایک، دو، تین نہیں بلکہ سینکڑوں بچوں اور بچیوں کی شادیاں کروائیں اور یہ شادیاں مکمل دھوم دھام سے ہوتی رہیں، وہ یاد کرتی ہیں کہ جب کسی بچی کی شادی کی تاریخ طے ہو جاتی تو وہ اس کے بعد اس کی شادی کی تیاریوں میں مصروف رہتیں۔ دُلہن کے علاوہ مراکز میں موجود بچوں اور بچیوں کے خصوصی کپڑے تیار کرواتیں، دُلہن کے جہیز کا سارا سامان پورا کرتیں، ایدھی سینٹر میں پلنے والے کئی بچے اور بچیوں کی زندگی بہتر ہوئی اور انھیں نئے گھر بھی دیکھنے کو نصیب ہوئے۔

صبا ایدھی کہتی ہیں کہ اکثر اوقات ایدھی جھولے پر بچے رکھ دیئے جاتے تھے، وہ سب سے پہلے بچوں کو اپنے سینے سے لگاتیں، ان کو نہلاتی، دھلاتی اور ان کا طبی معائنہ کروا کر ایک ہفتے تک اپنے سینٹر میں اپنی نگرانی میں رکھواتیں کہ اگر کوئی واپس لینے کے لیے آ جائے تو اس کو واپس کردیا جائے۔ عبدالستار ایدھی کے بعد ایدھی کے فلاحی کاموں کی نگرانی کرنے والے ان کے صاحبزادے فیصل ایدھی کہتے ہیں کہ کئی برسوں سے ایدھی کے مختلف بچوں اور بچیوں کے مراکز کے علاوہ کئی چیزوں کی نگرانی براہ راست ممی بلقیس ایدھی کرتی تھیں، بہت بڑا خلا پیدا ہوا تھا مگر ہم نے دیکھا کہ ممی نے اس دُکھ کو بھلانے کیلئے اپنی توجہ مزید خدمت کی طرف کر دی تھی۔ ممی کی بیماری اور پھر وفات کے بعد ان مراکز کو اسی طرح چلانا اور سنبھالنا کوئی اتنا آسان نہیں مگر ایک بات کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میری اہلیہ صبا اور بیٹی رابعہ جو پہلے بھی ممی کی معاونت کرتی تھیں، اب مل کر اس نظام کو چلا سکتی ہیں۔

فیصل ایدھی کو لگتا ہے کہ رابعہ بالکل ممی کی طرح ہیں، ہمیں تو وہ ممی ہی کا عکس لگتی ہیں، ہمیں اُمید ہے کہ خدمت کا وہ سفر جو عبدالستار ایدھی اور بلقیس ایدھی نے شروع کیا تھا، وہ اس کو نہ صرف جاری رکھیں گے بلکہ اس میں مزید بہتری بھی لائیں گے، رابعہ کہتی ہیں کہ میں اور ہمارے بہن بھائیوں نے بچپن سے اب تک صرف سادہ کپڑے پہنے اور سادہ خوراک استعمال کی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ہمارے دادا اور دادی کرتے تھے۔ اب تو ہماری پسند بھی سادہ کپڑے اور خوراک ہیں جبکہ ہمیں خوشی تفریح کر کے نہیں بلکہ ایدھی مراکز میں ملتی ہیں، انھیں دادی کی وفات کے بعد یہ کام ایک بڑا چیلنج محسوس ہوتا ہے، ہم کوشش کریں گے کہ ان کے مشن کو اچھے سے چلا سکیں اور عید کے موقع پر جب دادی کی بیٹیاں اپنے میکے اور بیٹے گھر آئیں تو ان کو مایوس نہ کریں، بس قوم کا ساتھ چاہئے۔

Back to top button