کیا عمران نے آرمی چیف کو توسیع نہ لینے کی وارننگ دی ہے؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار نجم سیٹھی نے دور کی کوڑی لاتے ہوئے کہا ہے کہ حال ہی میں عمران خان نے آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے جو غصیلی گفتگو کی ہے وہ دراصل جنرل قمر جاوید باجوہ کے لیے ایک تنبیہ تھی کہ اگر وہ تحریک انصاف کے مزید غیض و غضب سے بچنا چاہتے ہیں تو ایک اور توسیع لینے کی کوشش نہ کریں۔ سیٹھی کے بقول، اسی زہر آلو سانس میں عمران اگلے آرمی چیف کو بھی دباؤ میں لے آئے کہ وہ لازمی طور پر میرٹ پر لگایا جائے اور اسی محب وطن بھی ہونا چاہیے۔ یعنی حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے نئے آرمی چیف کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ شریفوں اور زرداریوں سے نفرت کرتا ہو اور ان کے خاتمے کی جنگ میں عمران خان کا ساتھ دے۔ مختصر یہ کہ خان صاحب ایک عمرانڈو آرمی چیف کا تقرر چاہتے ہیں جو ممکن نظر نہیں آتا۔
ہفت روزہ فرائیڈے ٹائمز کے تازہ ایڈیٹوریل میں نجم سیٹھی لکھتے ہیں کہ پاک فوج پرعمران کے تازہ ترین حملے نے ریڈ لائن کو اُڑا کر رکھ دیا ہے۔ اس سے پہلے وہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو ذاتی طور پر ہدف تنقید بنائے ہوئے تھے کیوں کہ اُنھوں نے ”نیوٹرل“ رہتے ہوئے ان کی حکومت کو اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد سے نہیں بچایا تھا جس کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت چلی گئی تھی۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ پی ڈی ایم حکومت جسے بھی آرمی چیف نامزد کرے گی، وہ لازمی نااہل اور غیر محب وطن ہوگا۔ انہوں نے ایک ہی سانس میں پاکستان کے تمام چوٹی کے جرنیلوں کو جو آرمی چیف بن سکتے ہیں، غیر محب وطن اور نااہل قرار دے دیا۔ اب ایک بات طے ہے کہ جب موجودہ جرنیلوں میں سے کوئی آرمی چیف نامزد ہوگا تو وہ عمران کے غیض و غضب کا نشانہ بن جائے گا۔
نجم سیٹھی یاد دلاتے ہیں کہ عمران ایک مرتبہ پھر دیوار کے ساتھ لگائے جانے کی صورت میں مزید خطرناک ہو گئے ہیں۔ فوج کی اعلیٰ قیادت کے خلاف اپنی حالیہ تقریر میں وہ اپنے قول کے پکے دکھائی دیے۔ اُنکے اشتعال کی وجہ فوج کا ”نیوٹرل“ ہونا ہے، اور عمران خان کی لغت میں نیوٹرل کا مطلب جانور ہوتا ہے۔ چند دن پہلے عمران نے گرجتے ہوئے کہا تھا، ”آصف زرداری اور نواز شریف نومبر میں ایک نیا آرمی چیف نامزد کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی پسند کا آرمی چیف لائیں گے کیوں کہ اُنھوں نے دولت لوٹی ہوئی ہے۔ وہ ڈرتے ہیں کہ اگر میرٹ پر کوئی طاقتور اور محب وطن آرمی چیف آ گیا تو وہ ان کو پوچھے گا اور ان کا احتساب کرے گا۔ یہی ڈر اُنھیں مجبور کررہا ہے کہ وہ نومبر تک اقتدار سے چمٹے رہیں تا کہ اپنی پسند کا آرمی چیف مقرر کرلیں۔ سیٹھی کے مطابق عمران فوری انتخابات چاہتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ وہ انتخابی کامیابی حاصل کر کے نومبر میں اپنی مرضی کا آرمی چیف نامزد کریں گے اور پھر فورسز کو اپنے ساتھ ملا کر زرداری اور نواز شریف کی سیاست کا خاتمہ کر دیں گے۔ درحقیقت اُن کا ہمیشہ سے یہی ایجنڈا تھا۔ اسی چیز نے اُنھیں گزشتہ برس فوج کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ تصادم کی راہ پر ڈال دیا تھا جب وہ اپنی پسند کا آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کرنا چاہتے تھے تاکہ اپنے عزائم کے حصول کے لیے اس ایجنسی کو استعمال کرسکیں۔ لیکن بلاشبہ عمران خان کی دیوانگی میں بھی ایک حکمت عملی پنہاں ہے۔ اپنی سب سے بڑی پریشانی کا باعث، جنرل باجوہ کو عمران نے کھلی تنبیہ کردی ہے کہ اگر وہ تحریک انصاف کے غصے سے بچنا چاہتے ہیں تو وہ ایک اور توسیع لینے سے باز رہیں۔
اس سے پہلے یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ شاید عمران نے اپنی تقریر میں اس جرنیل کو ممکنہ طور پر نیا آرمی چیف لگانے کی مخالفت کی ہے جسے انہوں نے وقت سے پہلے عہدے سے ہٹا کر فیض حمید کو آئی ایس آئی کا سربراہ لگا دیا تھا۔ فوجی ترجمان خان صاحب کے اس توہین آمیز بیان پر سناٹے میں آ گئے تھے۔ انہوں نے افواجِ پاکستان کے ایما پر سخت رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایک مایوس کن بیان کے ذریعے تنازعہ کھڑا کرتے ہوئے فوجی قیادت کو زک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے جو قابل مذمت ہے۔ نجم سیٹھی کے بقول، ماضی میں ایسی کوشش کا ارتکاب کرنے والو ںکو آرمی ایکٹ 1952 کا سامنا کرنا پڑا اور کورٹ مارشل کے بعد ان کی باقی عمر جیل میں گزرتی۔لیکن موجودہ کیس میں اسٹیبلشمنٹ کے جرنیلوں میں عدم اتفاق تھا کہ کیا عمران کی اشتعال انگیز ی کا جواب دیا جائے، اور کس طرح دیا جائے۔ کچھ سخت بیان چاہتے تھے، جب کہ دیگر کا خیال تھا کہ ردعمل کی ذمہ داری حکومت پر رہنے دی جائے۔ آخر کار رات گئے آئی ایس پی آر کی طرف سے سسکیوں بھرا بیان جاری ہوا۔ لیکن اس پر بھی عمران نے نمک پاشی کرتے ہوئے طنزیہ استفسار کیا کہ میں نے ایسا کیا غلط کہا ہے؟“ میں نے تو صرف میرٹ پر نئے آرمی چیف کی تقرری کا مطالبہ کیا ہے۔
نجم سیٹھی کے بقول عمران خان کو معلوم ہے کہ اُنھوں نے بہت کامیابی سے فوجی اسٹیبلشمنٹ میں دراڑ ڈال دی ہے۔ اب وہ ان اداروں پر دباؤ بڑھائے ہوئے ہیں جو ان کے سامنے سرنگوں ہونے کے لیے تیار نہیں، جیسا کہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن۔ لیکن اُن کے دست راست، عارف علوی، اسد عمر، شاہ محمود قریشی اور دیگر نے خود کو اس فوج مخالف بیان سے الگ کرلیا۔ اُن کی جانب سے عمران کے فوج مخالف بیان سے لا تعلقی کا عالم یہ تھا کہ سب نے ایک ہی موقف بنایا کہ اُنھوں نے نہ تو یہ بیان سنا ہے، اور نہ پڑھا ہے۔
اب عمران خان نے فوری عام انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے نواز شریف کے لیے طبل جنگ بجا دیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ میں تمہارا انتظار کررہا ہوں۔ خان نے گرجتے ہوئے کہا کہ ”آؤ، مجھ سے مقابلہ کرو۔“ نجم سیٹھی کے خیال میں اس سے ظاہر ہوتا ہےکہ کچھ اہم منصوبہ پس پردہ چل رہا ہے۔ اسٹبلشمنٹ اور عدالتیں ابھی تک عمران سے نرمی کیوں برت رہی ہیں جب کہ اُنھوں نے بہت سی سرخ لکیریں عبور کرلی ہیں؟ توشہ خانہ، فارن فنڈنگ اور دہشت گردی کے مقدمات پر اتنی سست پیش رفت کیوں ہورہی ہے؟ عمران فوری الیکشن کا مطالبہ کرتے ہوئے پی ڈی ایم حکومت کو نومبر سے پہلے گھر بھیجنے پر زور کیوں دے رہے ہیں؟ اسحاق ڈار اور نواز شریف کے بارے میں کیوں اطلاعات آرہی ہیں کہ وہ پاکستان روانگی کے لیے تیار ہیں؟ چار سال بعد مریم نوازنے اپنا پاسپورٹ واپس لینے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کیوں کی ہے تا کہ وہ لندن جا سکیں؟ عمران ”مسٹر ایکس اور مسٹروائی“ کو خبردار کیوں کر رہے ہیں کہ وہ تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کو چلتا کرنے کی سازش سے باز رہیں؟
اسی دوران عمران خان کی پرزور تردید کے باوجود صدر عارف علوی نے تصدیق کی ہے کہ پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے خفیہ کوشش جاری ہیں تاکہ ملک کشمکش کے گرداب سے نکل کر سیاسی اور معاشی استحکام کی راہ پر قدم رکھ سکے۔ ظاہر ہے کہ ایسا صرف اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر ہی ہوسکتا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا کوئی پنڈی پلان بن رہا ہے؟ انکاکہنا ہے کہ اگر پی ڈی ایم حکومت کو اکتوبر میں اسمبلی تحلیل کرنے اور جنوری 2023 میں عام انتخابات کے لیے قائل کیا جاتا ہے تو عمران اور شریف برادران کے اتفاق رائے سے قائم ہونے والی نگران حکومت باہم مشورہ سے نومبر میں اگلے آرمی چیف کو نامزد کرے گی۔ اس سے عمران کے دو مطالبات پورے ہوجائیں گے۔ اس کے بدلے میں نواز شریف کو واپس آ کر مسلم لیگ ن کی قیادت کرنے کی اجازت دی جائے گی، ق لیگ اور تحریک انصاف کی راہیں تیزی سے الگ کرکے پنجاب حکومت پی ڈی ایم کے حوالے کردی جائے گی۔ عمران خان، نواز شریف اور آصف زرداری کو پابند کیا جائے گا کہ مرکزی حکومت کے تحلیل ہوتے ہی وہ اپنی اپنی صوبائی حکومتیں تحلیل کردیں گے۔ حکومت تحلیل کرنے سے پہلے پی ڈی ایم عوام کو معاشی ریلیف پیکیج فراہم کرنے کی حقدار ہوگی کیوں کہ آئی ایم ایف کا مشکل پروگرام نافذ کرنے کی وجہ سے وہ بہت غیر مقبول ہوچکی ہے۔ اس طرح سب کے لیے ہموار میدان تیار ہوگا تاکہ اگلے برس شفاف الیکشن کا انعقاد ممکن ہو سکے، بشرطیکہ کوئی غیر معمولی حالات تاخیر کا سبب نہ بن جائیں۔ بلاشبہ یہ ایک مشکل مرحلہ ہے۔ مرکزی کھلاڑی ایک دوسرے سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ ان کا ایک دوسرے پر اعتماد کرنا دشوار ہے۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں وہ پھندا ہے جو ہر کسی کی گردن میں ہے۔ پی ڈی ایم کھیل کے لیے تیار ہے۔ اگر عمران معقولیت دکھانے سے انکار کرتے ہیں تو پھر ان کی گردن کے گرد پھندا تنگ ہونے لگے گا۔ یہ سب کچھ 29 نومبر کو جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ سے پہلے طے ہونا ہے، وگرنہ پنڈی پلان متحرک ہو جائے گا جس میں سب سے زیادہ نقصان عمران خان کا ہوگا۔