1988 کے اوجڑی کیمپ دھماکے سازش تھے یا حادثہ؟

10 اپریل 1988 کو راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر قائم آئی ایس آئی کے فیلڈ آفیسز میں شامل اوجڑی کیمپ میں ہونے والے خوفناک دھماکوں کی یاد عوام کے ذہنوں سے 33 برس گزرنے کے بعد بھی محو نہیں ہو پائی جسکے نتیجے میں سینکڑوں لوگ مارے گے تھے۔ شہر کے وسط میں قائم بارودی ذخیرے میں دھماکوں کے نتیجے میں راکٹ، میزائل اور گولہ بارود بارش کی طرح رہائشی اور تجارتی علاقوں پر برس رہا تھا اور چار سو افراتفری کا عالم تھا۔
بی بی سی کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ان دنوں افغان جنگ عروج پر تھی اور پاکستانی آئی ایس آئی امریکی سی آئی اے کی معاونت سے افغان باغیوں کو اسلحہ، گولہ وبارود، تربیت اور سرمایہ فراہم کر رہی تھی۔ آئی ایس آئی اسلام آباد اور راولپنڈی کے جڑواں شہروں کو ملانے والے مقام پر موجود اوجڑی کیمپ کو بارود خانے اور اسلحے کے ذخیرے کے طور پر استعمال میں لا رہی تھی۔
یہ 10 اپریل 1988 کی صبح ساڑھے نو بجے کا وقت تھا۔ اوجڑی کیمپ پاکستان کی طاقتور انٹیلیجنس سروس، آئی ایس آئی کا الگ تھلگ اور سنسان سا مقامی دفتر اور انٹیلیجنس کے افغان ڈیسک کا فیلڈ آفس تھا جبکہ اس کے وسیع و عریض احاطے کمپاونڈ کے اندر گولہ بارود کے ذخیرہ کی جگہ بھی واقع تھی۔
آئی ایس آئی کے افغان ڈیسک کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل محمود احمد غازی نے بعد ازاں اپنی تحریر کردہ یاداشتوں میں بیان کیا کہ ’فیلڈ فون استعمال کرنے والا افسر پریشان دکھائی دے رہا تھا کیونکہ بارود خانے سے اسے کوئی جواب نہیں مل رہا تھا۔ بارود خانے سے کوئی جواب نہ آنے کا مطلب تھا کہ کوئی بہت بڑی گڑ بڑ ہے۔‘ کرنل محمود احمد غازی نے لکھا کہ ’اس فیلڈ فون استعمال کرنے والے افسر نے مجھے بتایا کہ جہاں گولہ وبارود ذخیرہ کیا جاتا ہے، اس طرف سے زور دار دھماکے کی آواز سُنی گئی ہے، اسی اثنا میں میجر بٹ دوڑتے ہوئے دفتر میں داخل ہوئے اور کہا کہ بارودخانے میں دھماکہ ہو گیا ہے۔ اس وقت افغان ڈیسک کے سربراہ بریگیڈئیر افضل جنجوعہ اور افغان مجاہدین کے لیجنڈری ٹرینرکرنل امام سمیت دفتر میں موجود تمام افسران فوری طورپر بارودخانے کی طرف دوڑ پڑے۔‘
کرنل غازی اپنی کتاب ’افغان جنگ اور سٹنگر کی داستان‘ میں لکھتے ہیں کہ جب ہم بارود خانے کے مقام پر پہنچے جو افغان ڈیسک کے دفتر سے صرف 200 میٹر کے فاصلے پر تھا تو ہم نے دیکھا کہ کچھ افسر اور سپاہی اوجڑی کیمپ کے احاطے سے بارود سے لدے ٹرک نکالنے کی کوشش میں مصروف تھے، یہ کارروائی انھوں نے اس احساس کے بعد شروع کی تھی کہ کسی بھی لمحے اس سے بڑا دھماکہ ہو جائے گا۔‘ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل غازی نے لکھا کہ ’گیٹ پر پہنچنے پر ان ٹرکوں کے ڈرائیور اس وقت خوفزدہ ہو گئے جب انھوں نے گیٹ بند پایا۔ جیسے ہی گیٹ پر تعینات محافظوں کو پتہ چلا کہ کچھ گڑ بڑ ہے تو انھوں نے متعین طریقہ کار یعنی ایس او پیز کے مطابق تمام گیٹ بند کر دیے تھے۔ ایک اور افسر میجر رفاقت بارود سے بھرے ان ٹرکوں میں سے دس کو ایک محفوظ مقام تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔‘
کرنل غازی نے لکھا کہ ’بارود خانے کے مقام پر پہنچنے پر ایک خوفناک منظر نے ہمارا استقبال کیا۔ بارود خانہ جو چھت تک اسلحہ سے بھرا پڑا تھا، آگ کی لپیٹ میں تھا۔ بارود خانے میں کوئی شخص موجود نہیں تھا۔ بظاہر کوئی بھی آگ بجھانے کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ بارود خانے میں موجود عملے نے پہلے آگ پر قابو پانے کے بجائے فرسٹ ایڈ اور زخمی افراد کی منتقلی شروع کر دی تھی جو کہ ناتجربہ کاری اور تربیت کے فقدان کی یقینی علامت تھی۔‘
انھوں نے لکھا ’ہم سب کو احساس ہو گیا تھا کہ بہت بڑا دھماکہ ہونے میں بس چند ہی لمحے باقی ہیں جو بس ہونے ہی والا ہے، کرنل امام نے فوری خطرے کو محسوس کیا، مجھے ان کے الفاظ یاد ہیں کہ ’بہت دیر ہو گئی، اب کچھ نہیں ہو سکتا۔‘ وہ تحریر کرتے ہیں کہ ’ابھی ہم بمشکل ’جگہ خالی کرو‘ ہی چلِاّ پائے تھے کہ دھماکہ ہو گیا۔‘ جب یہ خوفناک دھماکہ ہوا تو وہاں موجود کسی آئی ایس آئی افسر کی طرف سے ایسی اطلاعات کا سامنے آنا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔لیفٹیننٹ کرنل محمود احمد غازی کی یاداشتوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شہر کے قلب میں یہ بارودخانہ بنانے کا خیال اس وقت کے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل اختر عبدالرحمن کا تھا۔ کرنل غازی کے مطابق جنرل رحمن نے آئی ایس آئی کے اندر یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی کہ اوجڑی کیمپ میں دھماکہ سبوتاژ کی کارروائی تھی تاکہ وہ خود پر ہونے والی اس تنقید کا رخ موڑ سکیں جو اس نکتے پر ہو رہی تھی کہ شہر کے بیچوں بیچ اتنے بڑے پیمانے پر گولہ باردو کا ذخیر آخر بنایا ہی کیوں گیا؟
ریٹائرڈ کرنل غازی لکھتے ہیں کہ ’ہر قسم کا اسلحہ کل ملا کر دس ہزار ٹن کے ذخیرے پر مشتمل تھا جو فضا میں اڑتا پھر رہا تھا، سٹنگر دائروں میں پرواز کر رہے تھے، ہزاروں راکٹ، اینٹی ٹینک مائنز یعنی ٹینک تباہ کرنے والی بارودی سرنگیں، ریکائیلز رائفلز چھوٹی توپوں کے گولے اور ہلکے ہتھیاروں کی لاکھوں گولیوں کی غضب ناکی ہر طرف جاری تھی۔ ایک پاگل خانہ تھا۔‘
کرنل غازی کے مطابق اس دھماکے میں آئی ایس آئی کے متعدد افسران، ایک درجن سے زائد افغان مجاہدین کے ساتھ مارے گئے جو ائی ایس آئی کے سٹنگر تربیتی سکول میں اس وقت زیر تربیت تھے، یہ سکول اُجڑی کیمپ ہی کے احاطے میں واقع تھا۔
ان دنوں عام خیال یہ تھا کہ اوجڑی کیمپ دھماکے میں روسیوں کا ہاتھ ہے تاکہ افغانستان کو سٹنگر کی فراہمی تاخیر کا شکار یا پھر معطل ہو جائے لیکن ریٹائرڈ کرنل غازی ایک دوسری ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔
انکا کہنا یے کہ جنرل اختر عبدالرحمن نے، جو اس وقت جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے چیئرمین کے طور پر کام کر رہے تھے، 10 اپریل 1988 کی شام تب اوجڑی کیمپ کا دورہ کیا جب آگ پر قابو پایا جا چکا تھا۔ کرنل غازی کے مطابق انھوں نے احاطے میں موجود آئی ایس آئی کے افسران سے بات چیت کی۔ ’جنرل اختر رحمن نے افسران سے کہا کہ ان کے خیال میں یہ سبوتاژ کی کارروائی ہے کیونکہ تمام گولہ وبارود جو ہمارے پاس تھا، وہ بہت ہی پائیدار ثابت ہوا اور گذشتہ چھ سے سات سال میں کبھی بھی ایسا واقعہ نہیں ہوا۔ یہ جنرل اختر کا آئیڈیا تھا کہ اتنے بڑے پیمانے پر امیونیشن ڈمپ یا بارودخانہ شہر کے اندر بنایا جائے۔ کرنل غازی کے مطابق ہمارے لوگوں نے شہری علاقوں کے قریب اس بارود خانے کے بنائے جانے پر متعدد بار اعتراض کیا تھا لیکن جنرل اختر نے سختی سے ان اعتراضات کو مسترد کر دیا۔ ان کی ترجیحات اصل میں بہت ہی مختلف تھیں۔‘
کرنل غازی کے مطابق آئی ایس آئی اور آرمی کے حلقوں کے اندر کشمکش جاری تھی۔ چنانچہ کچھ لوگ اس دھماکے کو سبوتاژ کی کارروائی بیان کرتے تھے تو دوسری جانب وہ تھے جو اسے ایک حادثہ قرار دے رہے تھے لیکن جنرل اختر تنقید کا رُخ تبدیل کرنا چاہتے تھے کیونکہ شہر کے اندر ڈمپ بنانے کا خیال ان کا تھا، اس لیے تنقید بھی ان پر ہی ہو تھی۔ جنرل ضیا نے بھی اسی شام جب متاثرہ مقام کا دورہ کیا تو ان کا مؤقف بھی یہی تھا۔
اوجڑی کیمپ کے واقعہ کی توجیح کے لیے ان دنوں کچھ سازشی کہانیاں بھی گردش میں تھیں۔ ان میں سے ایک نظریہ کچھ یوں تھا کہ پاکستان آرمی میں سے کسی نے یا بعض دیگر کے بیان کے مطابق شاید افغان مجاہدین میں سے کسی نے بے ایمانی کرتے ہوئے ایرانیوں کو کچھ سٹنگر میزائل فروخت کر دیے تھے اور امریکی فوجی ماہرین کی ایک ٹیم کیمپ کا دوہ کرنے والی تھی تاکہ میزائلوں کی تعداد کا جائزہ لے سکے۔
ریٹائرڈ کرنل غازی نے اس نظریے کے بارے میں براہ راست اپنی کتاب میں تو کچھ نہیں لکھا تاہم اس حادثے کے بارے میں وہ دو حقائق بیان کرتے ہیں کہ وہ اس سازشی تھیوری سے آگاہ تھے۔ سب سے پہلے ریٹائرڈ کرنل غازی آئی ایس آئی کے افغان ڈیسک کے پاس موجود سٹنگر میزائلوں کی تعداد کے بارے میں تفصیلات کا حوالہ دیتے ہیں: ’پاکستان نے امریکہ سے مجموعی طورپر 487 لانچر اور 2288 سٹنگر میزائل وصول کیے تھے۔ ان میں سے 122 لانچر اور 281 سٹنگر 10 اپریل 1988 کو اوجڑی کیمپ کے مشہور دھماکے میں تباہ ہو گئے جس کے بعد ہمارے پاس صرف 365 لانچر اور 2007 میزائل باقی رہ گئے تھے۔ ان میں سے 336 لانچر اور 1969 میزائل مجاہدین نے استعمال کیے تھے اور باقی ماندہ امریکہ کو واپس کر دیے گئے تھے۔‘
غالباً اس بیان سے کرنل غازی اس سازشی نظریہ کو رد کرنا چاہتے تھے کہ آئی ایس آئی میں سے کسی نے ایرانیوں کو سٹنگر فروخت کر دیے تھے۔