عمران اور باجوہ کا جلد الیکشن کا مطالبہ مسترد کیوں ہوا؟

اتحادی جماعتوں کی حکومت نے عمران خان اور فوج میں انکے حمایتی دھڑے کی جانب سے 20 مئی تک نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا مطالبہ مسترد کردیا ہے جس کے بعد شہباز شریف حکومت کے لیے مزید مشکلات پیدا ہونے کا امکان ہے۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کی جانب سے ملک میں فوری نئے الیکشن کے انعقاد کا مطالبہ سامنے آنے کے بعد آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی جانب سے بھی اتحادی حکومت کو یہ پیغام دیا گیا تھا کہ وہ 20 مئی تک نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دے۔ لیکن آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف نے مشترکہ طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ ملکی معیشت کو سنبھالنے اور نئے آرمی چیف کی تعیناتی تک ملک میں الیکشن نہیں کروایا جائے گا اور موجودہ حکومت اگست 2023 تک اپنی مدت پوری کرے گی۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ویسے بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان بتا چکا ہے کہ وہ اس سال کے آخر سے پہلے نئے الیکشن کروانے کی پوزیشن میں نہیں لہذا انتخابات اب اگلے سال ہی ہوں گے اور اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ حکومت اپنی معیاد پوری کرے گی۔
حکومتی ذرائع کا خیال ہے کہ فوری نئے الیکشن کی صورت میں عمران خان کو اقتدار سے نکالنے کا مقصد فوت ہوجائے گا اور ملک دوبارہ عمران کے حامی فوجی دھڑے کے ہاتھوں میں جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ الیکٹورل ریفارمز کے لیے آئینی ترامیم بھی ہونا ہیں اور نواز شریف کے مقدمات کا فیصلہ بھی ہونا ہے۔ چنانچہ شہباز حکومت نے ان تمام امور پر پیش رفت سے پہلے نئے الیکشن نہ کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکمران اتحاد کے رہنماؤں کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ حکومت اپنی مدت اگست 2023 تک پوری کرے گی اور مل کر انتخابی اصلاحات اور معاشی فیصلے کیے جائیں گے۔
اجلاس میں شریک ایک رہنما نے بتایا کہ وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے اتحادیوں کے اجلاس میں اکثریت کی رائے سے طے پایا کہ فوری الیکشن کے بجائے حکومت اپنی مدت پوری کرے اور معیشت کو درست کرنے کے لیے فیصلے مل کر لیے جائیں۔
وزیراعظم نے چینی کی برآمد پرمکمل پابندی عائد کردی
حکومتی اتحاد کے اجلاس میں مولانا فضل الرحمان، آصف علی زرداری، خالد مقبول صدیقی، وفاقی وزرا اعظم نذیر تارڑ، خواجہ آصف، سعد رفیق، مریم اورنگزیب اور دیگر شریک ہوئے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں میں اتحادیوں نے وزیراعظم کو یقین دہانی کرائی کہ وہ حکومت کے ساتھ ہیں اور ہر فیصلے میں ساتھ رہیں گے۔
مقامی میڈیا کے مطابق اجلاس میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے علاوہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی گرتی ہوئی قیمت اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے غور کیا گیا اور اس حوالے سے جلد فیصلوں پر اتفاق کیا گیا۔ اتحادیوں نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ معیشت کے استحکام کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر فوری قانونی رائے لی جائے اور آئندہ الیکشنز کے لیے انتخابی اصلاحات جلد مکمل کی جائیں۔ ذرائع کے مطابق اتحادیوں نے وزیراعظم شہباز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ روپے کی قدر میں استحکام کے لیے معاشی ٹیم فوری اقدامات کرے اور معیشت کی بہتری کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کو فوری حتمی شکل دی جائے۔ اتحادی رہنماؤں نے معیشت کی بہتری کے لیے حکومت کے سخت فیصلوں پر ساتھ دینے کی یقین دہانی بھی کرائی۔
یاد رہے کہ گذشتہ حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کے مطابق حکومت کو ہر شعبے میں سبسڈیز کو کم کرنا ضروری ہے، تاہم وزیراعظم عمران خان نے فروری میں تحریک عدم اعتماد سے چند دن قبل پیٹرول کی قیمت پر فی لیٹر 20 روپے کی رعایت کا اعلان کرتے ہوئے قیمتوں کو جون تک منجمد کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد پاکستان کے ساتھ آئی ایم ایف کا معاہدہ خطرے میں پڑ گیا تھا۔ معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچنے اور روپے کی قیمت میں استحکام لانے کے لیے ہر صورت آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ بحال کرنا ہوگا مگر وہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کرکے ان کی قیمتیں نہ بڑھائی جائیں۔
تاہم حکومت عام انتخابات سے قبل قیمتیں بڑھا کر اس کی سخت سیاسی قیمت نہیں دینا چاہتی تھی اس لیے گومگو کا شکار تھی۔ خاص طور پر مسلم لیگ ن کی حکومت پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت بڑھا کر سیاسی قیمت اکیلے ادا نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے تمام اتحادی جماعتوں کے ساتھ مشاورت سے فیصلہ کیا گیا۔ اس سے قبل مسلم لیگ ن کی اعلٰی قیادت نے لندن میں پارٹی قائد میاں نواز شریف سے تین روز تک مشاورت بھی کی تھی اور فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو اب پبلک کر دیا گیا ہے۔