سوشل میڈیا کے جھوٹے انقلابیوں کیلئے 5 لاکھ جرمانہ اور 10 سال قید

وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا پر شکنجہ کسنے اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا انقلابیوں کا پورا بندوبست کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ حکومت نے سائبر کرائم ترمیمی بل کا ابتدائی مسودہ تیار کرلیا جس کے تحت فیک نیوز دینے والے کو 5 سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی جا سکے گی۔ ذرائع کے مطابق پیکا ایکٹ میں ترامیم کے حوالے سے مشاورتی عمل مکمل ہو چکا ہےجلد بل کو منظور کروا کر نافذ العمل کر دیا جائے۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حکومت الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے نافذ العمل پیکا ایکٹ 2016 میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، جس کے تحت اب ایک نئی اتھارٹی تشکیل دی جائے گی جس کو آن لائن مواد کو بلاک کرنے اور سوشل میڈیا تک رسائی کو روکنے کے علاوہ ’جعلی خبریں‘ پھیلانے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اختیار حاصل ہوگا۔

سائبر کرائم ترمیمی بل  کے تحت ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی قائم کی جائےگی۔ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی کو سوشل میڈیا سے مواد بلاک کرنے یا ہٹانے کا اختیار ہوگا اور اتھارٹی قانون نافذ کرنے والے اداروں یا کسی شخص کے خلاف مواد ہٹانے کے احکامات جاری کرسکے گی جبکہ قانون نافذ کرنے والوں سمیت دیگر اداروں یا کسی شخص کے خلاف خبر دینے اور دہشت پھیلانے والا مواد ہٹادیا جائےگا۔

اتھارٹی کے پاس ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پھیلانے سے متعلق مواد کو بھی ہٹانے کا اختیار حاصل ہوگا۔ترمیمی بل کے تحت کسی شخص کو ڈرانے، جھوٹا الزام لگانے اور پورنو گرافی سے متعلق مواد کو بھی ہٹایا جاسکے گا جبکہ جان بوجھ کرجھوٹی معلومات پھیلانے، خوف و ہراس اور بدگمانی پیدا کرنے والوں کو 5 سال قید یا10 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔حکام کے مطابق اتھارٹی کا ایک چیئرمین اور 6 اراکین ہوں گے جب کہ اتھارٹی کے فیصلے کے خلاف ٹربیونل سے رجوع کیا جا سکے گا۔

ترمیم کے مسودے میں غیر قانونی مواد کی تعریف کو بھی کافی حد تک وسعت دی گئی ہے۔پیکا ایکٹ کے سیکشن 37 میں موجودہ ’غیر قانونی آن لائن مواد‘ کی تعریف میں اسلام مخالف، پاکستان کی سلامتی یا دفاع کے خلاف مواد، امن عامہ، غیر شائستگی، غیر اخلاقی مواد، توہین عدالت یا اس ایکٹ کے تحت کسی جرم کے لیے اکسانا شامل ہے۔ترمیم شدہ مسودے میں کم از کم 16 قسم کے مواد کی فہرست دی گئی ہے، جسے غیر قانونی سمجھا جائے گا۔ان میں گستاخانہ مواد بھی شامل ہے، اس کے علاوہ تشدد اور فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دینا، فحش مواد، کاپی رائٹ کی خلاف ورزی، جرائم یا دہشت گردی کی حوصلہ افزائی، جعلی یا جھوٹی رپورٹس، آئینی اداروں اور ان کے افسران بشمول عدلیہ یا مسلح افواج کے خلاف ’الزام تراشی‘، بلیک میلنگ اور ہتک عزت وغیرہ شامل ہے۔

وزیر اعظم کے مشیر بیرسٹر عقیل ملک کا ترامیم کی تصدیق کرتے ہوئے کہنا ہے کہ نئی شقوں کا مقصد غلط معلومات اور منفی پروپیگنڈے کو ختم کرنا ہے۔ترمیم کے مسودے میں مجوزہ تبدیلیوں میں سب سے زیادہ قابل ذکر ’سوشل میڈیا پلیٹ فارم‘ کی نئی تعریف ہے، جس میں مزید توسیع کی گئی ہے اور اب اس میں سوشل میڈیا تک رسائی کے لیے استعمال ہونے والے ٹولز اور سافٹ ویئر بھی شامل ہیں۔اس تعریف میں ایک اور اضافہ ’ویب سائٹ‘، ’ایپلی کیشن‘ یا ’مواصلاتی چینل‘ کا ہے جو لوگوں کو سوشل میڈیا تک رسائی حاصل کرنے اور مواد پوسٹ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔یہ توسیع شدہ تعریف حکومت کو ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس یعنی وی پی این کے استعمال کو بلاک یا محدود کرنے کی اجازت دے سکتی ہے کیونکہ وہ ان سوشل میڈیا سروسز تک رسائی حاصل کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں جو پاکستان میں بلاک ہیں۔

ترمیم شدہ قانون کے تحت حکومت ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی قائم کرے گی، جسے وہ تمام اختیار حاصل ہوں گے جو اس وقت پیکا ایکٹ کے تحت پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی یعنی پی ٹی اے کو حاصل ہیں۔ڈی آر پی اے سوشل میڈیا مواد کو ’ریگولیٹ‘ کرے گا، پیکا ایکٹ ترمیم کے تحت شکایات کی تحقیقات کرے گا اور حکام کو مواد تک رسائی کو ’بلاک‘ یا محدود کرنے کا حکم دے گا۔

Back to top button