فوج کے جھنڈی دکھانے کے بعد PTI والے حکومت سے مذاکرات پر تیار
فائنل کال کی ناکامی کے بعد اپنی خفت کو چھپانے کیلئے پی ٹی آئی قیادت ہاتھ پاﺅں ماررہی ہے۔لوٹ کے بدو گھر کو آئے کی مصداق پی ٹی آئی نے شہباز حکومت سے ہی مذاکرات کی خواہش کا اظہار کر دیا۔اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے جھنڈی دکھائی جانے کے بعد احتجاج سے قبل گردن دبوچنے کے درپے تحریک انصاف کے رہنماؤں نے اب حکومت سے مذاکرات کی بھیک مانگنا شروع کر دی ہے۔ تاکہ کسی طرح بانی پی ٹی آئی عمران خان کو ریلیف کی فراہمی کی راہ ہموار کی جا سکے۔ اپنی آخری کال کے حسرتناک انجام کے بعد بانی تحریک نے بادی النظر میں ہتھیار ڈال کر پارلیمنٹ کا رخ کر لیا ہے.
تحریک انصاف نے اپنی انتشاری سوچ کے تحت نو ماہ کی لگاتار ناکامیوں کے بعد بالآخر آٹھ فروری کا مینڈیٹ تسلیم کر لیا ہے پی ٹی آئی قیادت نے مطالبات کی منظوری کی آس لگاکر اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے رجوع کر لیا ہے،ذرائع کے مطابق تحریک انصاف سے معاملہ کرنے میں پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی ہم آہنگ ہیں تاہم دونوں جماعتوں میں اس بات پر اتفاق ہے کہ مذاکرات غیر مشروط ہونگے ،مذاکرات سیاسی جماعتوں کے مابین پارلیمنٹ میں ہونگے جو طویل نہیں ہونگے، مذاکرات کے دوران تحریک انصاف کے سامنے "آپشن” رکھے جائیں گے جبکہ پی ٹی ائی کی جانب سے کسی قسم کی شرائط مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہو سکیں گی .
مبصرین کے مطابق بانی پی ٹی آئی عمران خان نے اپنی آخری کال کے حسرتناک انجام کے بعد پہلی مرتبہ ہتھیار ڈال دیئے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کی امید مکمل طور پر ختم ہونے کے بعد پارلیمنٹ کا رخ کرلیا ہے تاہم انہیں یہ راہ دیکھنے کے لئے نو ماہ کی مسلسل ناکامیوں کا سامنا رہا ہے. تاہم اس طرح پہلی مرتبہ انہوں نے آٹھ فروری کا مینڈیٹ تسلیم کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو اپنی امیدوں کا مرکز بنالیا ہے۔ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کی قیادت نے پارلیمنٹ میں حکمران اتحاد کے بعض رہنماؤں سے رابطے کئے ہیں اور اپنے نئے لائحہ عمل پر ان سے بات چیت کا عندیہ دیا ہے۔
مبصرین کے مطابق حکومت کے خاتمے کے بعد سے عمران خان کو اپنی انتشاری حکمت عملی کی وجہ سے مسلسل ہزیمت کا سامنا ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان نے اپوزیشن میں بیٹھنے کی بجائے اپنے تمام ارکان قومی اسمبلی کو مستعفی ہونے پر مجبور کرکے سڑکوں پر تحریک چلا کر انقلاب لانے کا فیصلہ کیا لیکن انقلاب آنا تو کجا پوری پی ٹی آئی اقتدار کے ایوانوں سے سڑک پر آ گئی۔
بعد ازاں عمران خان نے ایک جلسے میں سائفر لہراتے ہوئے انکشاف کیا کہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ اور سیاستدانوں نے امریکا کے کہنے پر انہیں اقتدار سے محروم کیا۔ عمران خان نے امریکا اور فوج کےخلاف تندوتیز حملے کرکے عوامی مقبولیت تو حاصل کر لی مگر مقتدرہ میں قبولیت نہ مل سکی اور اقتدار کی راہ داری ان سے مزید دور ہو گئی۔ اب عمران خان ایک طرف جیل میں بیٹھ کر بھی اپنے کارکنان کو انقلاب کی خوشخبریاں دیتے ہیں اور فوجی سپہ سالار کے خلاف قبر تک پیچھا کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں تو دوسری طرف اسی مقتدرہ سے مذاکرات بھی چاہتے ہیں۔
مسلسل ناکامیوں کے دوران عمران خان نے فائنل احتجاج کی کال دے ماری تاہم فائنل کال کی ناکامی کی وجہ سے عمران خان رہا ہوئے اور نہ دھرنا ایک دن سے زیادہ چل سکا۔ اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر اقتدار میں آنے والے عمران خان کی جماعت انقلاب نہ لاسکی۔ مبصرین کے مطابق فائنل احتجاج کی ناکامی کے بعد بانی پی ٹی آئی عمران خان کو یہ اندازہ ہوجانا چاہیے کہ ان کی جماعت انقلابی جماعت نہیں ہے۔
9 مئی کے بعد ڈی چوک میں دھرنے کی ناکامی سے جماعت کو ایک ایسا دھچکا لگا ہے کہ کارکنان کی مایوسی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ 9 مئی کے بعد ہونے والے سخت ترین کریک ڈاؤن نے پارٹی کے اندر یہ خوف پیدا کردیا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑ نہیں سکتے اور اب ڈی چوک کے دھرنے کی ناکامی نے کارکنان کو مایوسی اور بے بسی کے گہرے سمندر میں ڈال دیا ہے۔ بغیر کسی منصوبہ بندی کے ’فائنل کال‘ بری طرح فلاپ ہوگئی۔
’فائنل کال‘ کی ناکامی سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ تحریک انصاف کسی بڑے انقلاب کا خواب سوچنا چھوڑ دے۔ انقلاب کی منصوبہ بندی چند دن یا ایک 2 مہینوں میں نہیں ہوسکتی۔ عمران خان کو جان لینا چاہیے کہ وہ محض اسٹیبلشمنٹ مخالف نعروں اور دھمکیوں کے بل بوتے پر رہا ہوکر دوبارہ اقتدار میں نہیں آ سکتے۔ سوشل میڈیا پر انقلاب کی باتیں کرنے والے سڑکوں پر نکلنے سے گھبراتے ہیں۔
مبصرین کے مطابق24 نومبر کے ڈی چوک کے دھرنے نے ایک بار پھر عیاں کیا کہ عمران خان یا بشریٰ بی بی کے سوا پارٹی میں کسی رہنما کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں۔ اسی لئے دوران احتجاج سنگجانی کے مقام پر اتفاق کرنے کے باوجود بشریٰ بی بی نے ڈی چوک جانے کی ضد کی اور تمام رہنما بے بس نظر آئے۔ تاہم یوتھیوں کے ڈی چوک پہنچنے کے باوجود انقلاب نہ آسکا اور بلکہ انقلاب جوتے چھوڑ کر سڑکوں پر بھاگتا دکھائی دیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق عوام کی جانب سے انتشاری اور احتجاجی حکمت عملی مسترد کرنے کے بعد اب تحریک انصاف کو انقلات لانے جیسے بے سود تجربے کرنے کی بجائے اپنے سپورٹرز کو ایک پائیدار حکمت عملی اور منشور دینا چاہیے تاکہ وہ سیاسی طریقے سے معاملات کو حل کرسکے۔ مبصرین کے مطابق احتجاج کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے حکومت سے مذاکرات کی خواہش ملکی سیاسی استحکام کیلئے کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔ جس سے نہ صرف پی ٹی آئی کیلئے بند راستے کھل سکتے ہیں بلکہ عمران خان کو ریلیف کی فراہمی کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔