8آئی پی پیزبجلی خریداری کےمعاہدےختم کرنےپرتیار
حکومتی کوششیں رنگ لےآئیں۔5 آئی پی پیزنےمتوقع اقدام کےطورپرپاورپرچیز ایگریمنٹ کےمعاہدےختم کرنےپراتفاق کیا ہے۔
پاور سیکٹر کی ٹاسک فورس سےمتعلق ایک اعلیٰ عہدیدار نےبتایا ہےکہ ان آئی پی پیز کو مستقبل میں ادائیگیاں نہیں کی جائیں گی لیکن ان کے سابقہ واجبات ادا کیے جائیں گے تاہم انہیں صرف بجلی کی قیمت ادا کی جائے گی اور اس پرسود ادا نہیں کیاجائےگا۔
ماضی کی کیپسٹی پیمنٹس جو حکومت پرآئی پی پیز کی جانب سےواجب الاد ہیں وہ 80سے 100ارب روپےہیں۔ ان واجبات کےحجم پرمذاکرات جاری ہیں۔ اس نمائندے نے اس حوالےسےمتعلقہ پانچوں آئی پی پیز کاموقف لینےکی کوشش کی تاہم کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔یہ آئی پی پیزجو بوٹ پروگرام تعمیرکرو،چلاؤ،ملکیت میں رکھو اور منتقل کردو کی بنیاد پرکام کررہی تھیں وہ حکومت کےحوالےہوجائیں گی تاہم جو آئی پی پیزبوٹ معاہدےکے تحت وجود میں نہیں آئیں وہ اپنے مالکان کے پاس ہی رہیں گی۔
وزیراعلیٰ علی گنڈا پور کےپی ہاؤس تک کیسےپہنچے؟
عہدیدارکے مطابق اس طرح کیپسٹی چارجزکی مد میں300 ارب روپےتک کی بچت ہو سکے گی جو کہ آئندہ 3 سے10 سال کےاندرانہیں ادا کی جانی تھی۔اور اس سے صارفین کو 0.60 پیسے فی یونٹ ریلیف ملے گا جو کہ ایک سال میں60ارب روپےبنتا ہے۔ان معاہدوں کےختم ہونےکےبعدان پانچ آئی پی پیزکوٹیک اینڈپےکی بنیاد پر کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔17 مزید آئی پی پیزجو کہ1994 اور2002 کے معاہدے کے تحت وجود میں ائیں ان کی نشاندہی بھی ہوچکی ہے۔یہ آئی پی پیز بھی ٹیک اینڈ پےموڈ کےبجائےٹیک آرپےکےمیکنزم پرمنتقل کی جائیں گی۔حکومت ان سے بجلی خریدنا اس وقت تک ٹیک ینڈ پےموڈ کے تحت بجلی خریدنا جاری رکھے گی جب تک کہ نجی پاور مارکیٹ نہیں بن جاتی ۔اس نےمزید کہا کہ ایک کرتبہ جب بجلی کی نجی پارکیٹ کا نظام بن گیا تو ان17 آئی پی پیز کو اجازت دی جائے گی ۔