کپتان اطلاعات تک رسائی کے قانون کو لے ڈوبے

انفارمیشن کمیشن آف پاکستان کی ہدایت کے باوجود وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے توشہ خانہ سے خریدے گئے تحائف کی تفصیل دینے سے انکار کے بعد اطلاعات تک رسائی کا قانون مزید بھی غیر موثر ہو جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا یے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ جب ملک کا وزیراعظم ہی ایک قانون کو تسلیم نہیں کرے گا تو پھر حکومت کا کوئی بھی ادارہ اس قانون کی پاسداری نہیں کرے گا۔ یوں اطلاعات تک رسائی کا قانون غیر موثر ہو کر رہ جائے گا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اطلاعات تک رسائی کے قانون 2017 کے اجرا کے بعد سے اب تک تقریبا 1500 مرتبہ حکومتی ادارے اس کی خلاف ورزی کے مرتکب قرار دیے جا چکے ہیں لیکن انکے خلاف کوئی کارروائی نہیں یو سکی۔ اب جبکہ کابینہ ڈویژن نے وزیراعظم کے ایما پر توشہ خانہ کے تحائف کی تفصیل فراہم کرنے سے متعلق انفارمیشن کمیشن کا حکم نامہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا ہے تو اس کی رہی سہی اتھارٹی بی ختم ہو جانے کا امکان ہے۔
اردو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان انفرمیشن کمیشن کے پاس نہ تو سٹاف مکمل ہے اور نہ ہی اسے لاجسٹکس کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ چنانچہ ایسے نامساعد حالات میں کام کرنے والا ادارہ اب اپنے فیصلے عدالتوں میں چیلنج ہونے کے بعد بالکل زچ ہو کر رہ گیا ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ دنوں اطلاعات تک رسائی کے قانون کے تحت ایک شہری نے تحریک انصاف حکومت کے تین سالوں میں ملنے والے تحائف اور انکے خریداروں کی تفصیلات عام کرنے کی درخواست دی تھی لیکن حکومت نے مطلوبہ معلومات دینے سے انکار کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ یہ ’حساس‘ اور ’قومی مفاد‘سے متعلق ہیں۔ شہری نے پاکستان انفارمیشن کمیشن میں اپیل کی جس نے حکومت کو تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی مگر کابینہ ڈویژن نے کمیشن کے اس فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل بھی اطلاعات تک رسائی کے قانون 2017 کے اجرا کے بعد سے اب تک سینکڑوں بار حکومتی ادارے اس قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ٹھہرے ہیں حالانکہ قانون کے مطابق ہر وفاقی ادارہ اطلاعات فراہم کرنے کا پابند ہے۔ صرف ان امور پر اطلاعات کی فراہمی نہیں کی جا سکتی جو آئین کے آرٹیکل 19 میں درج ہیں جیسا کہ وہ معلومات جن سے قومی سلامتی، غیر ممالک سے دوستانہ تعلقات، امن عامہ یا عدالت کی عزت یا آزادی متاثر ہوتی ہو۔ اس حوالے سے کمیشن کو اختیار ہے کہ فیصلہ کرے کہ کونسی معلومات اس دائرے میں آتی ہیں۔ تاہم کمیشن کے احکامات کو بھی نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔
چیف انفارمیشن کمشنر محمد اعظم کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں کمیشن کو عوام کی جانب سے 1500 سے زائد ایسی شکایات موصول ہوئیں جن میں بتایا گیا کہ حکومتی محکمے قانون کے مطابق درکار معلومات فراہم نہیں کر رہے۔ انہوں نے کہا کہ معلومات تک رسائی عوام کا حق ہے اس لیے کمیشن نے ایکشن لیتے ہوئے 700 سے زائد شکایات کا ازالہ کیا ہے۔ تاہم چیف انفارمیشن کمشنر نے بتایا کہ ’کمیشن کو اپنا کام کرنے میں شدید دشواریوں کا سامنا ہے۔ اسے اپنے قیام کے بعد دفتر کے حصول کے لیے ہی دو سال لگ گئے تھے جبکہ منظور شدہ تیس رکنی سٹاف میں سے اب تک صرف تیرہ لوگ ہی بھرتی ہو سکے ہیں۔ چیف انفارمیشن کمیشنر کے مطابق کمیشن کو ٹرانسپورٹ کی مد میں اب تک صرف ایک موٹر سائیکل فراہم کیا گیا ہے جبکہ سرکاری کاموں کے لیے کمشنر اپنی ذاتی گاڑیاں استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ تاہم انکا کہنا تھا کہ ان تمام مشکلات کے باجود اطلاعات تک رسائی کے قانون نے ہمارے معاشرے میں تبدیلی کی راہ ہموار کی ہے۔
محمد اعظم نے کہا کہ کمیشن تمام تر وسائل کی کمی کے باجود پرعزم ہے کہ ملک کے ہر ادارے کو عوام کے سامنے جواب دہ بنایا جائے گا اور عوام تک اطلاعات کی رسائی یقینی بنائی جائے گی۔ اس سلسلے میں قانون پر عمل نہ کرنے والوں پر جرمانے کیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ قانون کے تحت اطلاعات فراہم نہ کرنے والے افراد اور اداروں کو ایک لاکھ روپے تک جرمانہ اور سو دن تک کی تنخواہ ضبط کی جا سکتی ہے جبکہ ریکارڈ میں ردو بدل کرنے والے افراد کو دو سال تک قید کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ جب ملک کا وزیراعظم ہی انفارمیشن کمیشن کے احکامات پر عمل کرنے کی بجائے انہیں عدالتوں میں چیلنج کرنا شروع کر دیں تو پھر باقی ادارے بھی شیر ہو جائیں گے۔