بلوچ سردار کیسے اپنے عوام کو ماموں بنا کر اربوں روپے کھا رہے ہیں؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ بلوچستان کا 90 فیصد علاقہ سرداروں اور ان کی قبائلی فوج کے قبضے میں ہے اور اسمبلی اور حکومت بھی ان کی جیب میں ہے‘ این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے صوبے کو پچھلے دس برسوں میں ہزاروں ارب روپے ملے لیکن یہ رقم عام بلوچ پر خرچ نہیں ہوئی‘ یہ کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کا شکار ہو گئی‘ کیونکہ بلوچ سردار ایک دوسرے کو گرا کر حکومت حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔

اپنے تازہ ترین سیاسی تجزیے میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ بلوچستان پاکستان کا واحد صوبہ ہے جس کی پوری اسمبلی کابینہ میں شامل ہوتی ہے، تمام ایم پی اے وزیر ہوتے ہیں‘ اپوزیشن لیڈر نام کا ہوتا ہے اور یہ بھی صرف پروٹوکول انجوائے کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ انکا کہنا یے کہ ہم اگر1973سے آج تک کا ڈیٹا دیکھیں تو اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے بلوچستان میں ہمیشہ اقتدار کی باقاعدہ بندر بانٹ ہوتی ہے‘ سرداروں کے مختلف گروپ سال یا دو سال کی دیہاڑی لگاتے ہیں‘ ایک گروپ اقتدار میں آتا ہے‘ صوبے کو دل کھول کر لوٹتا ہے‘ اس کے بعد رخصت ہو جاتا ہے اور پھر اس کی جگہ دوسرا گروپ آ جاتا ہے اور رہی سہی دیگ وہ کھا جاتا ہے۔

جاوید چودھری کہتے ہیں کہ ریاست بڑی حد تک اس کھیل کا حصہ ہے‘ یہ خاموشی سے یہ کھیل دیکھتی ہے اور اگر خدانخواستہ کبھی کھیل رک جائے تو یہ  اس میں کود کر اسے دوبارہ سٹارٹ کرا دیتی ہے‘ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بلوچستان میں فرسٹریشن پھیل گئی۔ اس فرسٹریشن کی تین وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ سوشل میڈیا ہے‘ بلوچستان پاکستان کے اہم علاقوں سے کٹا ہوا تھا‘ عام بلوچ کو لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد کی ترقی کا اندازہ نہیں تھا لیکن جب موبائل فون آیا اور اس کے ساتھ سوشل میڈیا آ گیا تو محروم بلوچ نوجوانوں کو معلوم ہوگیا کہ بلوچستان کے خشک پہاڑوں کی دوسری طرف جنتیں آباد ہیں‘ اس سے ان کے اندر کی محرومی بڑھ گئی۔

جاوید چودھری کے مطابق بلوچ عوام کی فرسٹریشن کی دوسری وجہ مواصلاتی ذرائع میں اضافہ تھا‘ مشرف دور میں بلوچستان میں سڑکیں بنیں‘ اور کوسٹل ہائی وے کے ذریعے بلوچستان کو سندھ سے ملا دیا گیا۔ کے پی اور پنجاب کے ساتھ رابطہ سڑکیں بھی بہتر ہو گئیں لہٰذا بلوچ نوجوانوں کو ملک کے دوسرے علاقے دیکھنے کا موقع مل گیا۔ یوں انھوں نے اپنے حقوق کی بات کرنا شروع کر دی۔ ان کی فرسٹریشن کی تیسری وجہ بلوچ سرداروں کو ہونے والا یہ احساس تھا کہ نوجوان جلد یا بدیر ہم سے سوال کرنا شروع کر دیں گے چناں چہ انھوں نے ان کے سوالوں کو ریاست‘ فوج اور پنجاب کی طرف موڑ دیا‘ یہ سردار انھیں خود کہنے لگے آپ فوج‘ پنجاب اور ریاست سے پوچھیں‘ کی بلوچستان کے حصے کی نوکریاں اور ترقی کہاں ہے؟

جاوید چوہدری کے بقول چونکہ نوجوان سادہ تھے لہٰذا انھوں نے سرداروں اور اپنے سیاست دانوں سے پوچھنے کے بجائے ریاست سے پوچھنا شروع کر دیا۔ یہ صورت حال بھارت کو سوٹ کرتی تھی لہٰذا بھارت بھی بلوچستان میں کود گیا اور علیحدگی پسندوں کی امداد کرنے لگ گیا۔ اسکا تازہ ترین نتیجہ بلوچ ایکسپریس کے سانحے کی صورت میں ہم سب کے سامنے ہے۔ انکا کہنا ہے کہ حکومت ہمیشہ یہ غلطی کرتی رہی کہ اس نے سرداروں کو ہاتھ میں رکھنے کی پالیسی اپنائی، یہ کبھی ایک سردار کو اقتدار دے کر دوسروں کو کنٹرول کرتی اور کبھی دوسرے سرداروں کو آگے لا کر پہلے سرداروں کو قابو کر لیتی تھی۔

اسی لیے بلوچستان پاکستان کا واحد صوبہ ہے جس کی پوری اسمبلی کابینہ میں شامل ہوتی ہے،

 صوبے کا ترقیاتی بجٹ بھی یہ سب آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں‘ آپ المیہ دیکھیے عبدالقدوس بزنجو صرف 544 ووٹ لے کر ایم پی اے بنے حالانکہ ٹوٹل رجسٹرڈ ووٹ 57666 تھے۔ پھر بزنجو ان 544 ووٹوں کے ذریعے وزیراعلیٰ بلوچستان بن گئے‘ لوگ انھیں سلیپنگ وزیراعلیٰ کہتے تھے کیوں کہ یہ اپنی شبینہ مصروفیات کی وجہ سے دن بارہ بجے اٹھتے تھے اور اس کے بعد اگلی مصروفیات کا بندوبست شروع کر دیتے تھے اور یہ کھیل بلوچستان میں ہزار سال سے جاری ہے۔ یعنی سرداروں کو ہاتھ میں رکھیں‘ ان کے مطالبات پورے کرتے رہیں اور سسٹم چلاتے رہیں‘ اس بندوبست میں سردار امیر سے امیر ہوتے چلے گئے جب کہ عوام غریب سے غریب ہوتے چلے گئے۔

آپ یہاں دوسرا المیہ بھی دیکھیے‘ بلوچستان کا 90 فیصد حصہ بی ایریا کہلاتا ہے‘ اس ایریا میں پولیس نہیں ہے‘ لاء اینڈ آرڈر کی ذمے داری لیویز کے پاس ہے اور یہ لیویز سرداروں اور نوابوں کی ذاتی فوج ہوتی ہے‘ سردار حکومت کے ساتھ سودا کرتے ہیں کہ آپ ہمیں ہزار فوجیوں یعنی لیویز کی تنخواہوں اور رہائش کے اخراجات دے دیں اور ہماری فوج لاء اینڈ آرڈر کی ذمے داری اٹھا لے گی۔ یوں حکومت انھیں رقم دے دیتی ہے اور یہ حکومت کو اپنی لیوی کی فہرست دے دیتے ہیں۔ اس طرح یہ رقم سیدھی سردار کی جیب میں چلی جاتی ہے‘ یہ رقم 90 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے چناں چہ اگر یہ کہا جائے بلوچستان کے صرف دس فیصد علاقے پر حکومتی رٹ موجود ہے تو یہ غلط نہیں ہو گا‘ اب صورت حال یہ ہے بلوچستان کے صرف دس فیصد علاقے میں پولیس ہے۔

Back to top button