پرویز الٰہی نے کس لالچ میں اپوزیشن کے ساتھ دھوکہ کیا؟

پرویز الٰہی کی جانب سے اپوزیشن کی بجائے وزارت اعلیٰ کی حکومتی آفر قبول کرنے کی بنیادی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ
وہ بقیہ ڈیڑھ سال کی مدت کے لیے وزیر اعلیٰ بننا چاہتے تھے
جبکہ اپوزیشن کے ساتھ جانے کی صورت میں انہیں صرف چند مہینوں کی وزارت اعلیٰ ملتی۔ وجہ یہ ہے کہ نواز لیگ حکومت کی تبدیلی کے بعد جلد الیکشن کے موڈ میں نظر آتی ہے۔ لیکن سیاسی تجزیہ کار اسے پرویز الٰہی کا ایک بڑا سیاسی بلنڈر قرار دے رہے ہیں کیونکہ اگر مرکز میں عمران حکومت ختم ہو جاتی ہے تو پرویز الٰہی سرے سے ہی وزیر اعلی نہیں بن پائیں گے۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے عثمان بزدار کی چھٹی کروا کر پرویز الٰہی کو وزیراعلی پنجاب بنانے کے اعلان کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ سوال بھی گردش کر رہا ہے کہ کیا چوہدری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ کا انتخاب جیتنے میں کامیاب ہوں گے اور کیا وہ وزیرِاعظم عمران خان کی مرکز میں خاطر خواہ مدد کر پائیں گے خصوصاً جب ان کی اپنی جماعت میں تقسیم پیدا ہوگئی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں اپوزیشن کی بجائے عمران کی جانب سے وزارت اعلی کی آفر قبول کر کے پرویز الٰہی نے ایک بڑا رسک لیا ہے جس کے نتیجے میں انکا وزیر اعلی بننا کافی مشکل نظر آتا ہے کیونکہ ان کی اپنی جماعت کے پاس پنجاب اسمبلی میں صرف دس سیٹیں ہیں جبکہ حکمران جماعت تحریک انصاف میں تین دھڑے بن چکے ہیں اور پی ٹی آئی جہانگیر ترین، علیم خان اور غضنفر چھینہ گروپس میں تقسیم ہو چکی ہے۔
یوں تو پنجاب اسمبلی میں حکومتی جماعت کے پاس 183 اراکین موجود ہیں اور ق لیگ کے پاس 10 اراکین ہیں تاہم پی ٹی آئی کے اندر گروپوں کی صورت میں ’ناراض‘ اراکین کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جن کے لئے عثمان بزار تو ناقابل قبول تھے ہی لیکن وہ پرویز الہی کو بھی آسانی سے قبول نہیں کریں گے۔
تجزیہ نگاروں کی نظر میں چوہدری پرویز الٰہی کے لیے سب سے بڑا چیلنج انھی ناراض اراکین کو منانا ہو گا جس میں بڑا حصہ جہانگیر ترین گروپ کا ہے جس کے ایک درجن سے زائد اراکین پنجاب اسمبلی مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ کے عوض پرویز الہی کے خلاف اپوزیشن کا ساتھ دیں گے۔ سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ اگر عمران خان دو ہفتے پہلے پرویز الہی کو وزارت اعلیٰ کے لیے نامزد کر دیتے تو ان کے لئے وزیر اعلی بنا زیادہ آسان تھا، انکے خیال میں اب صورتحال کافی گھمبیر ہوچکی ہے اور پرویز الہی کو وزیر اعلی بننے کے لئے بہت زیادہ زور لگانا پڑے گا۔ نون لیگ کی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافی سلمان غنی کے مطابق پرویز الٰہی نے ’عمراننکے ساتھ جانے کر ایک نہیں بلکہ دو چیلنج لے لیے ہیں۔
ایک تو انھیں وزیرِ اعلٰی کا انتخاب جیتنا ہو گا اور دوسرا پی ٹی آئی کے ناراض اراکین کو واپس لانا ہو گا۔‘ ان کے خیال میں تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس وقت پرویز الٰہی مرکز میں عمران کی کتنی مدد کر پاتے ہیں چونکہ طارق بشیر چیمہ پہلے ہی اپوزیشن کے ساتھ جانے کا اعلان کر چکے ہیں اور پھر چوہدری خاندان کے اندر بھی دراڑیں پڑ چکی ہے چاہے وہ تسلیم کریں یا نہ کریں۔‘
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ایک ایسے موقع پر جب کہ اپوزیشن عمران خان کو مرکز میں گرانے کیلئے پورا زور لگا رہی ہے اور اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو چکی ہے، پرویز الہی کے لیے وزارت داخلہ جیتنا کافی مشکل چیلنج ہو گا۔ انہیں اپنی جماعت کے منحرف اراکین کو بھی منانا ہو گا اور حکومت کی دوسری اتحادی جماعتوں سے بھی وزیرِاعظم کے لیے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرنا پڑے گی۔
سہیل وڑائچ نے یاد دلایا کہ ماضی میں پرویز الہی نے بار بار یہ کہا تھا کہ قاف لیگ دیگر اتحادی جماعتیں یعنی ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ مل کر فیصلہ کرے گی لیکن جب وقت آیا تو پرویز الہی بھاگ کر بنی گالہ پہنچ گئے اور کسی سے مشورہ کیے بغیر ہی وزارت اعلیٰ کی پیشکش قبول کرلی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کے پرویز الہی کے اعلان کے فوراً بعد بلوچستان عوامی پارٹی نے اپوزیشن سے ہاتھ ملا لیا اور ایم کیو ایم نے یہ کہہ کر پرویز الہی کو فارغ کر دیا کہ موصوف نے تو ہم سے مل کر چلنے کا وعدہ بھی بھلا دیا۔
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ پرویز الہی کے لیے سب سے بڑا چیلنج پی ٹی آئی کے ناراض گروپوں کی حمایت حاصل کرنا ہو گا۔ تحریک انصاف کے ناراض گروپس یعنی جہانگیر ترین گروپ، علیم خان گروپ اور غضنفر چھینہ گروپ کی طرف سے وزیرِاعلٰی عثمان بزادار کو عہدے سے ہٹانا سب سے بڑا مطالبہ تھا۔ لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ عثمان بزدار کو ہٹا کر صرف دس ممبران والی جماعت کو وزارت اعلیٰ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، یعنی پہلے وزیراعلی پی ٹی آئی کا تھا اور اب قاف لیگ ہوگا جو کہ تحریک انصاف کے ناراض اراکین کو اور بھی ناراض کر سکتا ہے۔
عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ 3 اپریل کو ہوگی
سلمان غنی کے مطابق یہ اراکین عثمان بزدار کے ہٹائے جانے پر ضرور خوش ہوں گے تاہم کیا اس کے بعد وہ حکومتی جماعت کا ساتھ دیں گے، یہ تاحال واضح نہیں۔ پرویز الہی کی وزارت اعلی کے لیے نامزدگی کا فیصلہ بھی عمران خان نے خود ہی کیا ہے اور اس پر پی ٹی آئی کے کسی ناراض گروپ سے رائے نہیں لی گئی لہذا ان تینوں گروپس نے اپنے اجلاس بلا لیے ہیں اور فیصلہ کریں گے کہ آگے کیسے چلنا ہے۔
سلمان کے مطابق جب تک پرویزالٰہی اپوزیشن کے ساتھ جانے کا تاثر دے رہے تھے، ناراض گروپس بھی ان کے ساتھ کھڑا ہونے کو تیار تھے لیکن اب یہ دیکھنا ہو گا کہ جب پرویز حکومتی امیدوار بن کر سامنے آتے ہیں تو کیا پھر بھی جہانگیر ترین گروپ یا دوسرے ناراض اراکین ان کی حمایت کریں گے۔ لیکن اہم ترین سوال یہ ہے کہ اگر مرکز میں عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو پھر پرویزالٰہی کا کیا بنے گا۔ ایسے میں اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ پرویز الہی اپوزیشن سے دغا کرنے کے بعد نہ گھر کے رہیں اور نہ ہی گھاٹ کے۔
In what greed did Pervez Elahi betray the opposition? ] video in Urdu