مئی میں مہنگائی کی شرح ڈھائی سال کی بلند ترین سطح پر رہی

ملک میں گزشتہ ماہ مئی کے دوران مہنگائی کی شرح ڈھائی سال کی بلند ترین سطح پر رہی۔
ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق نقل و حمل اور خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا،جبکہ اپریل میں مہنگائی کی شرح 13.37 تھی جس میں مئی کے دوران ماہانہ بنیادوں پر 0.44 فیصد مزید اضافہ ہوا۔
ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق یہ جنوری 2020 کے بعد سب سے زیادہ صارف اشاریہ انڈیکس کی مہنگائی ہے، اس وقت افراطِ زر 14.6 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی، پی بی ایس کے مطابق شہری علاقوں میں مہنگائی کی شرح میں 12.36 فیصد اور دیہی علاقوں میں 15.88 فیصد اضافہ ہوا، مہنگائی میں سب سے زیادہ اضافہ ٹرانسپورٹ کی وجہ سے ہوا جس کے نرخ 31.77 فیصد بڑھے، اس کے بعد خوراک کی قیمتوں میں 17.25 فیصد اضافہ ہوا۔
ا دارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق خراب ہونے والی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں 26.37 فیصد اور نہ خراب ہونے والی اشیا کی قیمتوں میں 15.94 فیصد اضافہ ہوا۔
فوج اورعوام میں خلیج پیدا کرنے کی کوشش برداشت نہیں کرینگے
رپورٹ کے مطابق دیگر زمروں میں جن اشیا کی قیمتوں میں دوہرے ہندسے کا اضافہ دیکھا گیا ان میں فرنشنگ اور گھریلو دیکھ بھال کا سامان 16.11 فیصد، ریسٹورنٹس اور ہوٹل 15.98 فیصد، متفرق اشیا اور خدمات 13.32 فیصد، تفریح اور ثقافت 12.28 فیصد، کپڑے اور جوتے 11.29 فیصد، صحت 10.59 فیصد، الکوحل والے مشروبات اور تمباکو 10.13 فیصد شامل ہیں۔ شہری علاقوں میں پیاز 36.17 فیصد، چکن 16.98 فیصد، انڈے 13.07 فیصد، آٹا 10.51 فیصد، بیسن 6.68 فیصد، دال مسور 5.96 فیصد، گوشت 3.98 فیصد، چاول 3.40 فیصد، دال ماش 2.43 فیصد، گندم 2.06 فیصد سرسوں کا تیل 1.93 فیصد مہنگا ہواجبکہ دیہی علاقوں میں پیاز کی قیمت 28.60 فیصد، چکن 17.73 فیصد، انڈوں 1.48 فیصد، بیسن 8.33 فیصد، آلو 6.95 فیصد، آٹا 5.28 فیصد، سرسوں کا تیل 5.16 فیصد، دال مسور 4.56 فیصد، گوشت 3.13 فیصد، دال چنا 2.79 فیصد، دال ماش 2.48 فیصد، چاول 2.33 فیصد اور دودھ کی قیمت میں 2.05 فیصد اضافہ ہوا۔
گزشتہ ہفتہ جاری ہونیوالی وزرات خزانہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ مالی سال کے دوران پائیدار نمو کے حصول میں ملک کو درپیش چیلنجز میں سے بلند بیرونی خسارے، شرح مبادلہ کی قدر میں کمی، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال جیسے دیگر عوامل کے ساتھ تیزی سے بڑھتی افراط زر کو نمایاں کیا تھا، افراط زر میں اضافے کا بنیادی سبب اشیا کی بین الاقوامی قیمتوں میں اضافہ اور شرح مبادلہ میں نمایاں کمی تھی۔
رپورٹ کے مطابق درحقیقت ڈالر اور پاکستان کے اہم تجارتی شراکت داروں کی کرنسیوں کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی بنیادی طور پر ملک اور اس کے شراکت داروں کے درمیان افراط زر کے فرق کی عکاسی کرتی ہے،اس کے علاوہ نسبتاً بلند مقامی افراطِ زر میں روپے کی قدر کی کمی نے مزید اضافہ کیا،مزید برآں نسبتاً زیادہ گھریلو افراط زر کی تلافی روپے کی قدر میں کمی سے ہوتی ہے تاہم، کرنسی کی قدر میں کمی خود مقامی افراط زر میں اضافہ کرتی ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان ایک شیطانی افراط زر/کرنسی کی قدر میں کمی کی لپیٹ میں ہے۔