آرمی چیف لگانے کے چکر میں اتحادی جماعتوں نے اپنا بیڑا غرق کیا


سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت نے عمران خان کو نومبر سے پہلے اقتدار سے بےدخل کر کے انکی چار سالہ حکومتی ناکامیوں کا بوجھ اس لیے اپنے سر لیا کہ وہ انہیں اگلا آرمی چیف لگانے کا موقع نہیں دینا چاہتی تھیں، لیکن ناکام حکومت اپنے کندھوں پر اٹھانے کا یہی فیصلہ پی ڈی ایم کے گلے پڑ گیا ہے اور اسکی حکومت کا نومبر تک اقتدار میں رہنا مشکل ہو گیا ہے۔

 اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں مظہر عباس کہتے کہ 17 جولائی کو پنجاب میں ایسا کیا ہوا کہ ’بلے سے شیر‘ بھی زیر ہو گیا اور ایک بال سے کئی وکٹیں بھی گر گئیں۔ یعنی الٹی ہو گئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا۔ انکا کہنا ہے کہ یہ صرف پنجاب اسمبلی کی 20 سیٹوں پر الیکشن نہیں تھا، یہ دراصل ’ریفرنڈم‘ تھا عمران مخالف عدم اعتماد کی تحریک کیخلاف جس کا شاید اب خمیازہ سب سے زیادہ مسلم لیگ (ن) اور شریفوں کو بھگتنا پڑے گا۔

مظہر کہتے ہیں کہ طاقت کا سرچشمہ بہرحال عوام ہی ہوتے ہیں اور میں نے ہمیشہ ان کے سیاسی شعور کو مانا ہے۔ انکے مطابق ’تخت پنجاب‘ کا دھڑن تختہ ہونے کے بعد بہت بڑی سیاسی تبدیلیاں ہونے جارہی ہیں مگر ایک بڑا مقابلہ کراچی میں ہونے جارہا ہے۔ دیکھتے ہیں 24 جولائی کو کراچی کی کنجی، کس کے ہاتھ آتی ہے۔ انکا کہنا ہے کہ پنجاب کا الیکشن کئی لحاظ سے 2018 کے عام انتخابات سے بڑا الیکشن ثابت ہوا۔ تب الیکشن پر سوالات بھی تھے اور تمام تر مشکلات کے باوجود مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک بھی برقرار تھا۔ اب عمران خان کو ایک واضح نفسیاتی برتری حاصل ہو گئی ہے۔ آئندہ ہونے والے عام انتخابات سے پہلے مسلم لیگ (ن) کو بہت کچھ سوچنا پڑے گا۔ اس بار بیشتر لوگوں نےبرسوں بعد اپنا ووٹ برادری، ذات پات، کے بجائے پارٹی کے نشان کو دیا۔ مسلم لیگ کیلئے یہ سب سے بڑی شکست اس لئے بھی ہے کہ خود ان کی جماعت نے ان امیدواروں کو ٹکٹ دیئے جنہیں نااہل قرار دیا گیا تھا اور جو 2018 میں آزاد امیدوار کے طور پر جیت کر آئے تھے مگر اب وہ ان کی حمایت سے بھی نا جیت سکے کیونکہ پارٹی کے لوگوں نے یا تو گھر بیٹھنا مناسب سمجھایا PTI کو ووٹ دے دیا۔

مظہر عباس کا کہنا ہے کہ عمران خان کو اپنے اقتدار کی مدت پوری کرنے سے پہلے گھر بھیجنا اتحادی جماعتوں کی سب سے بڑی غلطی ہے۔ انہیں عمران کا ایک سال برداشت نہیں تھا اب شاید پانچ سال برداشت کرنا پڑے۔ ویسے تو سیاست پلٹتے دیر نہیں لگتی مگر ہمارے’’سیاسی بزرگوں‘ ‘نے اپنا تو نقصان کیا ہی ہے ، آنے والی نسلوں کیلئے بھی مشکل کھڑی کر دی۔ اب X یا Y کا زمانہ نہیں رہا۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو نےایک عام آدمی کو سیاسی شعور دیا، بولنا سکھا دیا تو عمران نے ان کو لڑنا اور ’بیلٹ باکس ‘ کے ذریعے تبدیلی کا راستہ ضرور دکھا دیا ہے۔ اگر ہماری سیاسی جماعتیں 2013 اور پھر 2018 کے الیکشن کا تجزیہ صحیح معنوں میں کرتیں تو انہیں شاید آج اس صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں 2013 میں جب پہلی پار تحریک انصاف کی حکومت آئی تو واضح تھا کہ اس کی فتح کے پیچھے افغانستان میں امریکی اتحادیوں کی مداخلت کے نتیجے میں جنگ میں پاکستان کی شرکت پر اس کی پوزیشن تھی۔ اس کو اس وقت ویسی ہی کامیابی ملی جیسی 2002 میں متحدہ مجلس عمل کو ملی تھی۔ دوسری بڑی وجہ عوام ،سیاسی قائدین اور کارکنوں پر تحریک طالبان پاکستان کے مسلسل حملے تھے۔ جس میں ان کے کئی رہنما اور کارکن شہید ہوئے۔ اس الیکشن میں عمران کو پنجاب اور کراچی میں بھی بڑا ووٹ پڑا مگر اتنا نہیں کہ حکومت بنا سکیں۔ اس وقت نواز شریف کی سب سے بڑی سیاسی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے چار حلقے، کھولنے کی بات سے انکار کیا اور 124 دن کے دھرنے کا جواز پیدا کیا۔ ’نیوٹرلز‘ کی اپنی سیاست تھی اور انہوں نے یقینی طور پر عمران خان کی حمایت کی، ویسے ہی جیسے 90 کی دہائی میں شریفوں کی بھی کی تھی۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ عمران حکومت اپنی چار سالہ بدترین کارکردگی کے بوجھ تلے دبتی جارہی تھی لیکن اچانک پی ڈی ایم کی جماعتوں نے انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کا فیصلہ کر لیا جس نے انہیں ایک نئی سیاسی زندگی فراہم کر دی۔ پی ٹی آئی والوں نے عمران کو صرف اس لئے حکومت سے نکالا کہ کہیں وہ نومبر میں اپنی مرضی کا آرمی چیف نہ لگا دیں۔ لیکن اب خود شہباز حکومت کو نومبر تک اپنے برسراقتدار رہنے کا یقین نہیں۔ اس پورے حکومتی اتحاد میں اگر کوئی پارٹی ابھی تک ’سیف‘ہے تو وہ پی پی پی ہے، جس کے مسلم لیگ (ق)سے بھی بہتر تعلقات ہیں اور مسلم لیگ (ن) سے بھی۔ اس کی سندھ حکومت بھی محفوظ ہے بلکہ بلدیاتی الیکشن میں دیہی سندھ کے ساتھ اسے شہری سندھ میں بھی بلدیاتی الیکشن میں اب تک سکھر، نواب شاہ، میرپور خاص میں کامیابی تقریباً مل چکی ہے اور 24 جولائی کو بدین، حیدر آباد اور کراچی میں بھی وہ بڑے چیلنج کے طور پر موجود ہے۔ ایسے میں دیکھنا یہ ہے کہ پنجاب کی طرف سے سندھ میں بھی پی ٹی آئی کوئی جادو چلا پاتی ہے یا نہیں؟

Back to top button