پاکستان میں جبری گمشدگیاں آخر کب رُکیں گی؟

گھر کا واحد کفیل اگر کچھ گھنٹوں کے لیے بھی دور ہو جائے تو پورا گھر کرب اور تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے لیکن گمان کریں کہ اگر کسی خاندان کا واحد کفیل کئی روز سے لاپتہ ہو تو اسکے اہل خانہ کس حال میں ہوں گے؟ پاکستان میں جبری گمشدگیوں نے ایسی کئی داستانیں رقم کی ہیں۔ تازہ ترین داستان زرعی یونیورسٹی راولپنڈی کے طالب علم فیروز بلوچ کی ہے 11 مئی 2022ء کو اپنی کتابیں لے کر یونیورسٹی لائبریری کی طرف روانہ تو ہوئے لیکن وہاں کبھی نہ پہنچ پائے اور لاپتہ ہوگئے، چار مہینے گزر جانے کے باوجود کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہیں، یہ بات آج تک ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔
فیروز بلوچ کے کزن اور اسی یونیورسٹی کمپلیکس کے ایک ہوسٹل میں اس کے روم میٹ رحیم بلوچ نے جب دیکھا کہ فیروز کافی دیر سے لاپتہ ہیں اور واپس کیمپس نہیں آئے، تو پہلے انہیں ایک واٹس ایپ میسج بھیجا۔ رحیم بلوچ نے بتایا کہ پہلے میں نے اسے واٹس ایپ پیغام بھیجا، لیکن وہ ڈلیور ہی نہ ہوا یعنی اس تک نہیں پہنچا، میں نے اسے کال کرنے کی کوشش کی تو اس کا نمبر بند تھا۔ میں نے سوچا کہ شاید اس کے موبائل فون کی بیٹری ختم ہو گئی ہو گی اور وہ جلد لوٹ آئے گا۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، میری پریشانی بڑھتی گئی۔ میں نے اسے تربت بلوچستان میں اس کے گھر فون کرنے کی کوشش کی تاکہ اس کے والدین سے پوچھوں کہ آیا ان کا حال ہی میں اپنے بیٹے سے کوئی رابطہ ہوا ہے، لیکن رات بہت ہو چکی تھی اور اس کے والدین سو چکے تھے۔
رحیم بلوچ نے بتایا کہ ہم نے یونیورسٹی انتظامیہ کو فیروز کے لاپتہ ہونے کے بارے میں مطلع کرنے کی کوشش کی لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے اس معاملے کا کوئی نوٹس نہ لیا، ہم قریبی تھانے میں رپورٹ درج کرانے گئے تو پولیس نے شکایت درج کرنے سے انکار کر دیا اور ہمیں بتایا کہ ایسا صرف قریبی یا خون کے رشتہ دار ہی کر سکتے ہیں، رحیم بلوچ نے کہا کہ فیروز کے والد نور بخش نے جو بلوچستان میں پولیس کے محکمے کے سرکاری ملازم ہیں اپنے لاپتہ بیٹے کی گم شدگی کی ایف آئی آر درج کرا دی۔ فیروز بلوچ کے والد نے بتایا یہ 12 مئی کا دن تھا، جب رحیم نے ہمیں فیروز کے لاپتہ ہونے کی اطلاع دی تھی۔ یہ خبر میرے دل پر تیر کی طرح لگی۔
مجھے اس کی والدہ اور بہن بھائیوں کو اس واقعے کے بارے میں بتانے کے لیے بڑی ہمت کرنا پڑی۔ فیروز بلوچ کی گمشدگی سے عام لوگوں میں پاکستانی شہریوں کے اچانک لاپتہ ہو جانے کے بارے میں شعور بھی بیدار ہوا، 2000ء کے بعد سے، جب اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر اپنی آمرانہ حکومت قائم کی تھی، تب سے ہی ملک میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ عروج پر ہے۔ایک ماں، جو لاپتہ کشمیریوں کے لیے لڑ رہی ہے بلوچ اور دیگر برادیریوں سے تعلق رکھنے والے افراد گزشتہ حکومت سے بھی سخت احتجاج کر چُکے ہیں۔
زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی شہریوں کے یکدم لاپتہ ہو جانے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے، بلوچ اور پشتون نسل کے شہریوں کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا جا رہا ہے، مارچ 2011 ء میں ایک کمیشن آف انکوائری برائے لاپتہ افراد بھی بنایا گیا تھا۔ اس کمیشن کے 2022 ء میں جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں لاپتہ افراد کی یکدم گم شدگی کے کل 8696 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، ان میں سے چھ ہزار پانچ سو تیرہ واقعات حل ہو چکے ہیں جبکہ دو ہزار دو سو انیس کیس ابھی بھی التوا میں ہیں۔
سینئیر صحافی گوہر محسود کہتے ہیں کہ انکوائری کمیشن کے اعداد و شمار حقیقی تعداد سے کہیں کم ہیں۔ یہ کمیشن 2011 ء میں تشکیل دیا گیا تھا اور سال 2000 میں عام شہریوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ مزید برآں بلوچستان، خیبر پختونخوا، سندھ اور سابق فاٹا کے دور دراز علاقوں کے لوگوں کے لیے اس کمیشن تک رسائی حاصل کرنا اور اپنے لاپتہ عزیزوں کی گمشدگی کی رپورٹیں درج کرانا بھی بہت مشکل ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے مطابق پانچ ہزار سے زائد پشتون اب بھی لاپتہ ہیں۔ سابق سینیٹر اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق چیئر پرسن افراسیاب خٹک نے بتایا کہ پاکستانی سینیٹ میں اپنی رکنیت کے دور میں ایسی جبری گمشدگیوں کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی کمیٹی بنوائی تھی۔ اس کمیٹی نے اندازہ لگایا تھا کہ جبری گمشدگیوں میں انٹیلیجنس ایجنسیاں اور خاص طور پر انٹر سروسز انٹیلیجنس ملوث ہے۔

Related Articles

Back to top button