9مئی کیلئے دہشت گردوں کی افغانستان میں فوجی تربیت ہوئی

9مئی کا واقعہ کسی بیرونی طاقت کی معاونت سے ملک میں بغاوت اور خانہ جنگی کرانے کے لئے مربوط منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا جس کے لئے طالبان، افغان اور خیبر پختون خواء میں نظریۂ پاکستان پر یقین نہ رکھنے والے نوجوانوں کے گروہ تیار کئے گئے اور انہیں خیبر پختونخواء کے دور دراز علاقوں کے علاوہ افغانستان کے سرحدی بستیوں میں جنگی ٹریننگ دی گئی جبکہ ان زیر تربیت نوجوانوں کے ذہنوں میں پاکستان کے خلاف نفرت بھرنا ان کی ٹریننگ کا بنیادی حصہ رہا۔

یہ انکشاف سینئر صحافی شکیل انجم نے اپنے ایک کالم میں کیا ہے . وہ لکھتے ہیں کہ لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ عمران خان کو کس طاقت کی پشت پناہی نے اتنا حوصلہ دیا کہ اس نے پاکستان کے خلاف بغاوت کرنے کی جرات کی اور فوج اور اس کی حساس تنصیبات پر حملہ کیا اور فلسفۂ شہادت کو بے توقیر اور جذبۂ شہادت کا تمسخر اڑا کر قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ یہی لوگ اس واقعہ کو عوامی ردعمل کی بجائے ’’ناکام بغاوت‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ 9مئی کو ملک میں بغاوت، خانہ جنگی، سول نافروانی اور فوجی تنصیبات پر حملوں کے بعد یہ تاثر قائم ہوا ہے کہ عمران خان کے بنیادی ایجنڈے میں پاکستان اور اس کی معیشت کو تباہ کرنا، اپنے مخصوص یا مذموم مقاصد کے حصول کے لئے نئی نسل کو گمراہ کرنا، ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے کیلئے فوج پر براہ راست حملے کر کے سرحدوں کو کمزور کرنا اور پاکستان کو دنیا میں دہشت گرد ملک ثابت کرکے تنہا کرنے کیلئے شرپسندی اور دہشتگردی کی تربیت حاصل کرنے والے گروہوں کے ذریعے ملک میں بدامنی اور بے چینی پھیلانا شامل ہیں۔

ملکی معیشت کی مکمل تباہی کیلئے IMF اور.F.A.T.F کو گمراہ کن مراسلے بھیجے گئے تاہم تحقیقاتی اداروں نے PTIکی جانب سے معیشت دشمن مہم میں شامل کرداروں کا سراغ لگا لیا ہے۔شکیل انجم بتاتے ہیں کہ تحقیقاتی ادارے اس واقعہ کو عمران خان کی گرفتاری پر عوام کا بے ساختہ ردعمل تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں بلکہ زمینی حقائق، سائنسی اور تیکنیکی شواہد کے علاوہ پارٹی کی کور کمیٹی کے براہ راست معلومات رکھنے والے معتبر راہنماؤں کے بیانات کی روشنی میں یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ 9مئی کا واقعہ کسی بیرونی طاقت کی معاونت سے ملک میں بغاوت اور خانہ جنگی کرانے کے لئے مربوط منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا جس پر مرحلہ وار عملدرآمد کے لئے طویل عرصہ تک ملٹری آپریشن کے انداز میں باضابطہ پلاننگ کی گئی جسے کامیاب بنانے کے لئے طالبان، افغان اور خیبر پختون خواء میں نظریۂ پاکستان پر یقین نہ رکھنے والے نوجوانوں کے گروہ تیار کئے گئے اور انہیں خیبر پختونخواء کے دور دراز علاقوں کے علاوہ افغانستان کے سرحدی بستیوں میں جنگی ٹریننگ دی گئی جبکہ ان زیر تربیت نوجوانوں کے ذہنوں میں پاکستان کے خلاف نفرت بھرنا ان کی ٹریننگ کا بنیادی حصہ رہا۔

تربیت مکمل ہونے پر ان سے عمران خان کا وفادار رہنے کا حلف لیا گیا اور انہیں آئندہ حکم کا انتطار کرنے کی ہدائت کے ساتھ ملک کے مختلف حصوں میں پھیلا دیاگیا۔تحقیقاتی اداروں کو ایسی معلومات فراہم کرنے والوں میں پرویز خٹک کے علاوہ جہانگیر ترین، فواد چوہدری، فیصل واوڈہ، اسد عمر، اسد قیصر اور اعظم خان شامل ہو سکتے ہیں۔ان حالات میں جولائی کے مہینے میں ہی عمران خان کی گرفتاری کے اشارے مل رہے ہیں۔

شکیل انجم کے مطابق شواہد موجود ہیں کہ عمران خان نے جو کیا ملک اور قومی سلامتی کے خلاف کیا۔اپنے ملک کی مخالفت میں بات کی اور وزیر اعظم کی حیثیت سے قرار دیا یہ ملک دہشتگردوں کی معاونت اور پشت پناہی کرتا ہے۔ کہتے ہیں جنرل عاصم منیر شروع سے ہی عمران خان کے ناپسندیدہ شخصیت رہے ہیں اس کی وجہ عمران خان کا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے ۔چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر اور عمران خان کے درمیان اس وقت اختلاف پیدا ہوا جب عمران خان وزیر اعظم کی حیثیت سے ایران کے دورے پر گئے اور جنرل عاصم منیر جو اس وقت ڈائریکٹر جنرل آئی-ایس-آئی تھے، بھی بلحاظ منصب وفد میں شامل ہوئے۔ ایرانی حکام کے ساتھ گفتگو کے دوران پاکستان میں دہشتگرد تنظیموں کی موجودگی اور انہیں مختلف ممالک کے خلاف کارروائیوں کے حوالے سے وزیراعظم کی جانب سے کی جانے والی غیرذمہ دارانہ گفتگو کے حوالے سے اعتراضات ہوئے جو عمران خان کو ناگوار گزرے اور انہوں نے ان اعتراضات پر آئی-ایس-آئی چیف کو نشانہ بنایا اور یہ ناراضی اس وقت مزید بڑھ گئی جب انہوں نے عمران خان کی بیگم کے خلاف کرپشن کے شواہد پیش کئے، جو ان کو ان کے منصب سے ہٹانے کی وجہ بنی۔

شکیل انجم پوچھتے ہیں کہ آج فوجی عدالتوں کے نظام کو غیر آئینی قرار دینے والے عمران خان کے دور حکمرانی میں کیوں خاموش تھے جب جبر کے اس پونے چار سالہ دور میں لاکھوں سرکاری، نیم سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین کو کوئی وجہ بتائے بغیر نوکریوں سے برطرف کردیا گیا۔ یہ لوگ اس وقت کہاں تھے جب فوجی عدالتوں سے عمران خان کی معاونت اور منظوری سے 17سولینز کو سزائیں ہوئیں جن میں 3کو سزائے موت اور 14کو 5سے 14سال تک کی سزائیں ہوئیں۔اس وقت فوجی عدالتوں میں سولینز کے خلاف مقدمات کی سماعت پر اعتراضات اٹھانے والی بظاہر بڑی بڑی قدآور شخصیات تب کہاں تھیں جب عمران خان کی سرکار میں وہی فوجی عدالتیں’’ آئینی اور جمہوری‘‘ طور پر کام کر رہی تھیں جو اب’’غیر آئینی اور غیر جمہوری‘‘ قرار دی جا رہی ہیں۔

شکیل انجم کہتے ہیں کہ عمران خان کی بے حسی اور اپنی پارٹی کارکنوں کے ساتھ محبت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب بھی ’’اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم داستان غم‘‘ سناتے ہیں تو پارٹی کارکنوں کے لئے نہیں بلکہ اپنے بہنوں اور بھانجوں کے لئے بات کرتے ہیں۔ایسی کئی مثالیں ریکارڈ پر موجود ہیں جب انہوں نے اپنے اس بھانجے حسان نیازی کو’’معصوم‘‘ قرار دیا جس نے کور کمانڈر ہاؤس پر یلغار کرنے اور اس کو تہہ و بالا کرنے والے گروہ کی قیادت کی اور کور کمانڈر کی یونیفارم کا تمسخر اڑایا اور پارٹی کارکنوں سے لاتعلقی ظاہر کر دی جنہوں نے اپنی جوانیاں، مستقبل اور زندگیاں متکبر اور خودغرض شخص کے ایک اشارے پر قربان کر دیں اور اس کے لئے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو تڑپتا چھوڑ کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے گئے جن کی تعریف اور حمائت میں عمران خان کی زبان سے ایک جملہ بھی نہیں ادا نہیں ہوا۔

Related Articles

Back to top button